۱؎ اس فرمان عالی کا مطلب ابھی کچھ پہلے عرض کیا گیا کہ جن امیروں کا قیامت میں حساب ہوگا ان امیروں سے پانچ سو سال پہلے فقیر لوگ جنت میں پہنچ جائیں گے لہذا ان امیروں میں حضرت سلیمان علیہ السلام یا حضرت عثمان غنی داخل نہیں کہ ان کا حساب ہی نہیں پھر پیچھے ہونے کے کیا معنی۔خیال رہے کہ گزشتہ حدیث میں چالیس سال پہلے کا ذکر تھا اور یہاں پانچ سو سال کا ذکر ہے کیونکہ فقراء بعضے امیروں سے چالیس سال پہلے جائیں گے،بعض سے پانچ سو سال پہلے،جیسا امیر ویسا اس کا حساب اتنی ہی اس کے لیے دیر۔یہ بھی خیال رہے کہ یہ دیر حساب کی وجہ سے نہ ہوگی رب تعالٰی سارے عالم کا حساب بہت جلد لے گا یہ ان فقراء کی شان دکھانے کے لیے ہوگی کہ امیروں کو حساب کے نام پر روک لیا گیا اور فقیروں کو جنت کی طرف چلتا کردیا گیا۔
۲؎ یعنی قیامت کا دن ایک ہزار برس کا ہے،رب تعالٰی فرماتاہے:"اِنَّ یَوْمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ" ہاں بعض کو پچاس ہزار سال کا محسوس ہوگا،ان کے متعلق رب فرماتا ہے:"فِیۡ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیۡنَ اَلْفَ سَنَۃٍ"اور بعض مؤمنین کو گھڑی بھر کا محسوس ہوگا،رب تعالٰی فرماتاہے:"فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّوْمٌ عَسِیۡرٌ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ غَیۡرُ یَسِیۡرٍ"۔(مرقات)لہذا آیات میں تعارض نہیں اور ہوسکتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہو مگر بعض کو ایک ہزار سال کا محسوس ہو،بعض کو اس سے بھی کم حتی کہ ابرار کو ایک ساعت کا محسوس ہوگا جیسے ایک ہی رات آرام والے کو چھوٹی محسوس ہوتی ہے تکلیف والے کو بڑی۔