مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت عمر سے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ تنوقں والی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے ۱؎ آپ کے اور اس چٹائی کے درمیان کوئی بستر نہ تھا اورتنگے آپ کی کروٹ میں اثر کر گئے تھے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے جس کا بھراؤ کھجور کی چھال سے تھا ۲؎ میں نے کہا یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)رب سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت پر وسعت فرمادے ۳؎ کیونکہ فارس روم پر بڑی وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ۴؎ فرمایا اے ابن خطاب تم اس خیال میں ہو ۵؎ یہ وہ قوم ہے جن کے لیے دنیاوی زندگی میں ان کی نعمتیں دے دی گئی ۶؎ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ کیا تم اس سے راضی نہیں کہ دنیا ان کے لیے ہو اور آخرت ہمارے لیے ۷؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ حصیر چٹائی رومال کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی،ان پتوں کو اردو میں پنگے کہتے ہیں۔ ۲؎ یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی تکیہ شریف کا غلاف چمڑے کا تھا جس میں بجائے روئی کے کھجور کی نرم چھال یعنی درخت کھجور کا نرم گودا تھا۔ ۳؎ اس عرض و معروض میں یا تو امت کا ذکر زائد ہے۔مطلب یہ ہے کہ آپ پر وسعت فرمادے مگر بے ادبی کے خوف سے امت کا نام لیا ،یا مطلب یہ ہے کہ حضور آپ کی امت اس فقر وفاقہ میں آپ کی پیروی نہ کرسکے گی،دعا فرمائیں کہ ان پر اللہ تعالٰی دنیا و سیع کرے انہیں دنیا میں عیش و عشرت نصیب ہو مگر پہلا احتمال زیادہ قوی ہے جیسا کہ جواب عالی سے معلوم ہورہا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر حضور کے صدقہ سے دنیا بہت ہی فراخ ہوئی،تمام دنیا کے بادشاہ مسلمان بنادیئے گئے جیسا کہ تواریخ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں۔ بوریا ممنون خواب راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امتش ۴؎ یعنی روم و فارس کے بادشاہ کافر ہیں مگر انہیں دنیا بہت دی گئی ہے،وہ عیش و آرام میں ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اﷲ کے محبوب ہیں حضور کا عیش و آرام ان سے زیادہ چاہیے۔ ۵؎ یعنی تمہاری رائے تو ایسی شاندار ہوتی ہے اس کے موافق قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں تم جیسا پختہ اور درست رائے والا کوئی ہی ہوگا، تم بھی یہاں دھوکہ کھا گئے اور کسریٰ و قیصر کی عیش و عشرت والی زندگی کی آرزو رائے ہمارے واسطے کرنے لگے اس لیے یہاں ابن خطاب کے خطاب سے یاد فرمایا نام شریف نہ لیا،ابن خطاب فرمانے میں بھی عجیب ناز و انداز ہے۔ ۶؎ یعنی ان کفار کو دنیاوی عیش و آرام عطا فرمانا اللہ تعالٰی کی رحمت نہیں بلکہ عذاب ہے کہ اس کی وجہ سے وہ آخرت کی نعمتوں سے محروم ہوگئے،کفر و فسق کے باوجود نعمتیں ملنا ان پر اللہ کا عذاب ہے۔ ۷؎ یعنی کفار کے لیے صرف دنیا ہو ہمارے لیے آخرت بھی ہو ۔صوفیاء کے نزدیک دنیا وہ ہے جو اللہ سے غافل کردے،جو مال و دولت آخرت کا توشہ بن جائے وہ دین ہے لہذا اسی حدیث کی بنا پر دولت عثمانی پر اعتراض نہیں ہوسکتا وہ تو عین دین تھی،نیز اللہ تعالٰی نے بعد میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دولت عطا فرمائی جو حضور نے اپنے ہاتھوں سے بانٹیں اب بھی ہم سب حضور کے آستانہ سے پل رہے ہیں،بہرحال یہ حدیث بالکل واضح ہے مؤمن کی دنیا اور ہے کافر کی دنیا اور۔شعر دونوں کی ہے پرواز اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور