Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
8 - 4047
حدیث نمبر 8
روایت ہے حضرت ابوسعید خدری سے کہ رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بعد جن چیزوں سے تم پر خوف کرتا ہوں وہ دنیا کی ترو تازگی دنیا کی زینت ہے جو تم پر کھول دی جاوے گی  ۱؎ تو ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ  کیا خیر بھی شر لاتی ہے۲؎ تو حضور خاموش رہے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ پر وحی نازل ہورہی ہے ۳؎ فرماتے ہیں پھر حضور نے اپنے سے پسینہ پونچھا اور فرمایا سائل کہاں ہے ؟ غالبًا حضور نے اس کی تعریف فرمائی پھر فرمایا کہ خیر شر کو نہیں لاتی ہے ۴؎ جسے بہار اُگاتی ہے اس میں سے بعض وہ ہے جو پیٹ پھلا کر ہلاک کردیتی ہے یا بیمار کردیتی ہے ۵؎سوائے اس جانور کے جو سبزی کھائے حتی کہ اس کی کوکھیں تن جاویں ۶؎ تو دھوپ میں آجاوے تو لوٹے پوٹے پیشاب کرے پھر لوٹ جاوے اور کھائے ۷؎ اور یقینًا یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے ۸؎ تو جو اسے اس کے حق سے لے اور اس کے حق میں خرچ کرے ۹؎  تو وہ اچھا مددگار ہے ۱۰؎ اور جو ناحق لے ۱۱؎ وہ اس کی طرح ہوگا جو کھالے اور سیر نہ ہو ۱۲؎ یہ مال اس کے خلاف قیامت کے دن گواہ ہوگا ۱۳؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ یعنی میری وفات کے بعد تم پر دنیا کی دولت،فتوحات،عزت و جاہ کے دروازے کھل جاویں گے ان کا مجھے خطرہ ہے کہ کبھی تم ان میں پھنس کر اللہ  تعالٰی سے غافل نہ ہوجاؤ،غریبی میں خدا یاد رہتاہے اور امیری میں بھول جاتا ہے۔شعر

بادہ نوشیدن دہش زشستن سہل است		 گر  بدولت  رسی  ہشیار  نشینی  مردی

۲؎ یہ سوال بہت ہی گہرا ہے۔مطلب یہ ہے کہ وہ مال و دولت،جاہ و حشمت شر ہوگی یا خیر،اگر شر ہوگی تو رب تعالٰی آپ صلی اللہ  علیہ وسلم کی امت کو کیوں دے گاآپ کی امت تو مرحومہ ہے اور اگر خیر ہوگی تو اس سے یہ شر کیسے پیدا ہوگی،خیر تو خیر ہی کا ذریعہ ہوتی ہے نہ کہ شرکا تو حضور انور صلی اللہ  علیہ وسلم اندیشہ کیوں فرماتے ہیں۔

۳؎ اس سائل کا سوال اتنا عمدہ تھا کہ اس کا جواب رب تعالٰی نے دیا حضور صلی اللہ  علیہ وسلم پر وحی فرمایا،سوال بھی اعلٰی سوال کرنے والا بھی شاندار۔

۴؎ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ غنیمتیں دولت و عزت وغیرہ خیر ہی ہوں گی مگر اندیشہ یہ ہے کہ تم اس خیر کو غلط استعمال کرکے اپنے لیے وبال بنالو۔خیر ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے مگر اس کا غلط استعمال شرکا باعث ہوجاتا ہے،جب حضور انور پر وحی آتی تھی تو پسینہ آجاتا تھا اگرچہ سردی کا موسم ہوتا۔

۵؎ یہ نہایت نفیس مثال ہے کہ جنگل کا سبزہ اللہ  کی نعمت ہے مگر جو گائے اسے ہوس کے ساتھ کھائے جائے بس ہی نہ کرے تو بیمار پڑ جاتی ہے،اسے اس سبزہ نے بیمار نہ کیا بلکہ اس کی ہوس نے اسے مصیبت میں ڈال دیا،یوں ہی جو شخص دنیا سے کبھی سیر نہ ہو،حرام و حلال میں تمیز نہ کرے،جو ملے قبضہ کرلے،اللہ  کی عبادت کے لیے فارغ نہ ہو،ہر وقت دنیا طلبی میں سرگرداں رہے ظاہر ہے کہ وہ ہلاک ہوگا۔

۶؎ پیٹ کی دو کروٹوں کا تن جانا پیٹ بھر جانے کی علامت ہوتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب اس کا پیٹ خوب بھرگیا۔

۷؎ یعنی جب پہلا چارہ ہضم ہوجاوے تب دو بارہ کھائے،یوں ہی مسلمان کو چاہیے کہ حلال روزی حاصل کرے وہ بھی صبر و قناعت کے ساتھ کہ کچھ وقت روزی کمانے کے لیے رکھے،کچھ وقت اللہ  کی عبادت کے لیے،کمایا ہوا مال کچھ خود کھائے کچھ غرباء فقراء کو کھلائے اسی لیے اسلام میں روزانہ پانچ نمازیں فرض فرمائیں اور مال میں زکوۃ،فطرہ،قربانی وغیرہ کا حکم دیا۔نیز جو مسلمان گناہ کرے تو فورًا عنایت الٰہی کی دھوپ میں آئے توبہ کرے معافی چاہے،آئندہ زندگی احتیاط سے گزارے یہ مثال بہت پہلو رکھتی ہے۔

۸؎ کہ دیکھنے میں بھی اچھا لگتا ہے برتنے میں بھی آرام دہ ہوتا ہے اس لیے لوگ اس میں جلد پھنس جاتے ہیں،تم احتیاط رکھو۔

۹؎ یعنی مال اچھے راستے سے آئے،اچھے راستہ جائے۔اگر چھت کا پانی پرنالے سے نہ نکالا جائے تو چھت پھاڑ کر گھر گرا دیتا ہے۔

۱۰؎ یعنی ایسی دنیا دین کی مددگار ہے جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت عثمان غنی کی دولت کہ اس سے ان بزرگوں نے جنت خریدلی ایسی دولت اللہ  کی رحمت ہے۔

۱۱؎ اس طرح کہ حرام ذریعہ سے کمائے جوا،سود،رشوت چوری وغیرہ سے،حرام طرح سے جمع رکھے کہ اسے اللہ  کی راہ میں خرچ نہ کرے،نہ کھائے نہ کھانے دے نہ کسی کو کھلائے،جمع کرکے چھوڑ جائے یہ جمع حرام ہے۔مشہور ہے کہ کنجوس کا مال اس کے مرے بعد صندوق سے نکلتا ہے۔

۱۲؎ یعنی جیسے جوع البقر بیماری والا آدمی کھائے جاتا ہے سیرنہیں ہوتا حتی کہ کھاتے کھاتے مرجاتا ہے یہ ہی حال اس دنیا دار کا ہے۔

۱۳؎ یعنی اس کا یہ مال اس کے لیے وبال ہوگا،اس کی حرص وہوس کی گواہی دے گا۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ دولت سانپ ہے اور دین اس کا تریاق۔جس کے پاس دین ہو اس کے لیے دولت مفید ہے،بے دین کی دولت ہلاکت کا سبب ہے۔اس حدیث سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ متقی مؤمن کا مال قیامت میں اس کے ایمان تقویٰ اور سخاوت کا گواہ ہوگا۔
Flag Counter