مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت اسامہ ابن زید سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم جنت کے دروازے پر کھڑے ہوئے ۱؎ تو وہاں داخل ہونے والے عمومًا مسکین لوگ تھے اور مالدار روکے ہوئے تھے سوائے اس کے کہ آگ والوں کو آگ کی طرف جانے کا حکم دے دیا گیا تھا ۲؎ اور میں آگ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو وہاں عام داخل ہونے والی عورتیں تھیں ۳؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ حضور کا یہ قیام یا تو جسمانی معراج کی رات تھا یا خواب کی معراج میں یا کشف والہام میں۔(مرقات) ۲؎ خلاصہ یہ ہے کہ مالدار لوگ دو قسم کے ہیں: ایک جنتی،دوسرے دوزخی۔جو مالدار دوزخی ہیں وہ تو دوزخ میں ٹھہرائے گئے جیسے قارون،فرعون،ابوجہل وغیرہ ۔جو جنتی ہیں وہ حساب کے لیے روکے ہوئے ہیں،رہے فقراء مسلمان وہ جنت میں بھیج دیئے گئے۔خیال رہے کہ مالدار جنتیوں سے مراد وہ مالدار ہیں جن کا حساب ہوناہے جن کا حساب ہی نہیں لیا جاتا وہ جنت میں فورًا بھیج دیئے گئے،جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،یہ بھی خیال رہے کہ یہ چالیس سال مالداروں سے حساب میں صرف نہ ہوں گے رب تعالٰی سارے جہان کا حساب بہت تھوڑی دیر میں لے لے گا پھر ایک مالدار کے حساب میں چالیس سال کیسے خرچ ہوں گے بلکہ ان مالداروں کو حساب کے انتظار میں رکا رہنا پڑے گا جیسے مقدمہ کی تاریخ پر فریقین شام تک انتظارکرتے ہیں کہ کب بلاوا ہو۔ ۳؎ کیونکہ عورتیں زیادہ تر دنیا کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اپنے خاوندوں بلکہ گھر بھر کو نیکیوں سے روک دیتی ہیں۔خیال رہے کہ یہ واقعات بعد قیامت ہوں گے مگر حضور انور کی نظر انہیں اس وقت دیکھ رہی ہے کیونکہ پیغمبر کی نظر غائب چیز کو دیکھ لیتی ہے۔