Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
75 - 4047
باب فضل الفقراء و ما کان من عیش النّبیّ صلی اللہ علیہ و سلم 

فقیروں کی بزرگی کا بیان  ۱؎  اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی شریف کیسی تھی ۲؎
الفصل الاول

پہلی فصل
۱؎    فقر کے معنی ہیں خالی ہونا،فقیر وہ جو مال سے خالی ہو۔شریعت میں فقیر وہ ہے جس کے پاس مال کم ہو،طریقت میں فقیر وہ ہے جس کا دل تکبرو غرور سے خالی ہو،اُس میں تواضع،انکسار،مساکین سے محبت ہو فقرے ہے۔ صبر اللہ کی رحمت ہے اس کی بہت تعریفیں آئی ہیں اور فقر مع ضجر یعنی بے صبری والا فقر اللہ کا عذاب ہے ۔اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ کبھی فقر کفر بن جاتا ہے۔اس باب میں پہلی قسم کے فقراء کی تعریفیں ہوں گی جو مع صبر ہو۔

۲؎   سبحان اللہ! ان دونوں مضمونوں کا اجتماع بڑا ہی پیارا ہے،فقر محمدی مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔ شعر 

سروری در دین ماخدمت گری است 		 عدل فاروقی و فقر حیدری است 

حق یہ ہے کہ فقیر صابر افضل ہے امیر شاکر سے،قرآن کریم نے فرمایا کہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں او ر زیادہ نعمتیں دیں گے اور صبر کے متعلق فرمایا اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ کسی نے حضور غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی سے پوچھا کہ فقیر صابر افضل ہے یا امیر شاکر،فرمایا ان دونوں سے فقیر شاکر افضل ہے یعنی فقیری بلا نہیں تاکہ اس پر صبرکرو بلکہ اللہ تعالٰی کی نعمت ہے اس پر شکر کرو۔احناف کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس نصاب سے کم مال ہو اور مسکین وہ جس کے پاس بالکل مال نہ ہو،شوافع کے ہاں اس کے برعکس ہے۔(اشعہ)حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا اگر آپ چاہتے تو  آپ کے ساتھ سونے کے پہاڑ رہتے۔(حدیث شریف)
حدیث نمبر 75
روایت ہے حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے پراگندہ بال دروازوں سے نکالے ہوئے  ۱؎  اگر اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ انہیں بری کرے ۲؎ (مسلم)
شرح
۱؎  اس فرمان عالی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا داروں کے دروازوں پر جاتے ہیں وہاں سے نکالے جاتے ہیں وہ تو رب کے دروازے کے سوا کسی کے دروازے پر نہیں جاتے،بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی حقیقت سے دنیا غافل ہے،اگر وہ کسی کے پاس جاتے تو وہ ان سے ملنا گوارہ نہ کرتا،رب نے انہیں دنیا والوں سے ایسا چھپایا ہوا ہے جیسے لعل پہاڑ میں یا موتی سمندر میں تاکہ لوگ ان کا وقت ضائع نہ کریں۔

۲؎  اس فرمان عالی کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: کہ ایک یہ کہ وہ بندہ اگر اللہ تعالٰی کو قسم دے کر کوئی چیز مانگے کہ خدایا تجھے قسم ہے اپنی عزت و جلال کی یہ کردے تو رب تعالٰی ضرور کردے یہ ہے بندہ کی ضد اپنے رب پر۔دوسرے یہ کہ اگر وہ بندہ خدا کے کام پر قسم کھا کر لوگوں کو خبر دے دے تو خدا اس کی قسم پوری کردے مثلًا وہ کہہ دے کہ خدا کی قسم تیرے بیٹا ہوگا یارب کی قسم آج بارش ہوگی تو رب تعالٰی ان کی زبان سچی کرنے کے لیے یہ کردے،بعض لوگ بزرگوں کی زبان سے کچھ کہلواتے ہیں حضور کہہ دو کہ تیرے بیٹا ہوگا،کہہ دو کہ تو مقدمہ میں کامیاب ہوگا اس عمل کا ماخذ یہ حدیث ہے۔(اشعۃ اللمعات)حضرت غوث بہاؤ الحق ملتانی اور بوڑھی عورت کا واقعہ اس کا ثبوت ہے کہ عورت نے کہا بہاء الحق واپس آجاؤ اللہ کی قسم آج بارش ہوجائے گی میں بارش کرادوں گی،حضرت یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی سیف زبانی تو قرآن کریم میں مذکور ہے،اس کی تحقیق ہماری کتاب فہرست القرآن میں دیکھو۔
Flag Counter