Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
72 - 4047
حدیث نمبر 72
روایت ہے حضرت معاذ ابن جبل سے فرمایا جب انہیں رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم ان کے ساتھ تشریف لے گئے  ۱؎ آپ انہیں وصیت فرمارہے تھے اور جناب معاذ سوار تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے ۲؎ ان کے کجاوہ کے نیچے تو جب فارغ ہوئے فرمایا اے معاذ ! ممکن ہے کہ تم اس سال کے بعد مجھے نہ ملو غالبًا۳؎ تم اب میری مسجد اور میری قبر پر گزرو ۴؎ تو جناب معاذ رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم کی جدائی سے گھبرا کر بہت روئے ۵؎ پھر حضور واپس ہوئے تو اپنا چہرہ پاک مدینہ کی طرف کیا ۶؎ پھر فرمایا کہ لوگوں میں مجھ سے قریب تر لوگ پرہیزگار ہیں جہاں بھی ہوں۷؎ ان چاروں حدیثوں کو احمد نے روایت کیا۔
شرح
۱؎ حضرت معاذ کو یمن کا حاکم اعلٰی بنا کر بھیجا تو حسب معمول انہیں پہنچانے کے لیے ثنیۃ الوداع تک تشریف لے گئے اس طرح کہ حضرت معاذ حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کے حکم سے سوار تھے اور حضور انور پیدل تھے۔

۲؎ سنت یہ ہی ہے کہ جس کو وداع کرو اسے کچھ دور پہنچانے کے لیے پیدل جاؤ۔میں نے اس جگہ کی زیارت کی ہے جہاں تک حضور پہنچایا کرتے تھے،اس عمل شریف میں اپنے مقرر کردہ حکام کا احترام فرمانا ہے۔

۳؎ یہاں لعل شک کے لیے نہیں بلکہ یقین کے لیے ہے جیسے رب تعالٰی فرماتاہے:"لَعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا"یا  فرماتاہے: "لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ"۔

۴؎  وقبری میں واؤ بمعنی مع ہے یعنی میری قبر پر آؤگے جو اسی مسجد میں ہوگی۔(مرقات)اس فرمان عالی میں پانچ غیبی خبریں ہیں: ایک یہ کہ ہم عنقریب وفات پاجائیں گے،دوسرے یہ کہ ہماری وفات مدینہ منورہ میں ہوگی،تیسرے یہ کہ ہماری قبر انور مسجد نبوی شریف میں ہوگی ،چوتھے یہ کہ حضرت معاذ ہماری زندگی میں وفات نہ پائیں گے بلکہ ہمارے بعد ،پانچویں یہ کہ جناب معاذ ہماری قبر پر زیارت کرنے آئیں گے،یہ پانچوں باتیں علوم خمسہ سے ہیں یہ ہے ہمارے نبی کا علم۔

۵؎ یہ خیال کرکے روئےکہ میں حضور انور سے اب ہمیشہ کے لیے الوداع ہورہا ہوں۔آج مدینہ منورہ سے چلتے وقت جو حالت حجاج کی ہوتی ہے وہ بیان نہیں ہوسکتی۔شعر 

 بدن سے جان نکلتی ہے     آہ سینے    سے  		 تیرے  فدائی    نکلتے  جب  مدینے     سے

روضہ اچھا،زائر اچھے،اچھی راتیں اچھے دن		سب کچھ اچھا،ایک رخصت کی گھڑی اچھی نہیں 

حضرت معاذ تو آج مدینہ والے محبوب صلی اللہ  علیہ وسلم سے ہمیشہ کے لیے الوداع ہورہے ہیں۔

۶؎ یعنی میں آگے روانہ ہوا حضور انور واپس مدینہ پاک کی طرف پھرے تو بلند آواز سے یہ فرمایا جو میں نے بھی اپنے کانوں سے سن لیا کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی تسلی کے لیے تو یہ فرمایا تھا۔

۷؎ اس فرمان عالی کے چند مقصد ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ اے معاذ تم اس ظاہری فراق سے غم نہ کرو تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو جہاں بھی ہو گے میرے پاس مجھ سے قریب ہی رہو گے۔دوسرے یہ کہ تاقیامت مسلمان تقویٰ پرہیزگاری کے ذریعہ مجھ سے قریب ہوسکیں گے زبان وطن قومیت ہم سے قریب کرنے کے لیے کافی نہیں،قرآن کے پاس اطاعت کے قدم سے آؤ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ارادات کے قدم سے پہنچو،ہم صرف مدینہ میں ہی نہیں رہتے ہم تو عاشقوں کے سینہ میں رہتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ میرے متصل جو خلیفہ بنیں گے حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ مجھ سے بہت ہی قریب ہوں گے تم ان کو دیکھ لیا کرنا ان کے رخسار میں میرا جمال دیکھو گے۔(اشعہ و مرقات)بعض حضور کے قرابت دار مکہ میں رہ کرحضور سے دور رہے جیسے ابولہب،بعض دور رہ کر حضور سے قریب رہے جیسے حضرت اویس قرنی ۔خیال رہے کہ تقویٰ بہت قسم کا ہے جیسا تقویٰ ویسا حضور انور سے قرب۔تقویٰ کے درجات اس کے اقسام و علامات ہماری تفسیر نعیمی میں ھدی للمتقین کی تفسیر میں دیکھو۔
Flag Counter