۱؎ یا تو اس وقت تک تصویر حرام نہ ہوئی تھی یا وہ تصویریں بہت چھوٹی تھیں جو دور سے نظر نہ آتی تھیں اس لیے ہٹائی نہ گئیں لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ جاندار کی تصویر رکھنا تو حرام ہے پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے پردہ میں کیوں تھیں۔
۲؎ یعنی اس جگہ سے منتقل کردو ہمارے سامنے نہ رکھو اور جگہ رکھو ہٹا دو،یہ نہ فرمایا مٹادو،اس وجہ سے جو ابھی عرض کی گئی کہ یا تو اس وقت تصویریں حرام نہ ہوئی تھیں،یا بہت چھوٹی تھیں ایسی چھوٹی تصویریں اب بھی جائز ہیں۔(لمعات)
۳؎ یعنی ایسے نقشِیں پردے امیروں کے ہاں ہوتے ہیں جس سے ان کی امیری ظاہر ہوتی ہے،یہ پردہ دیکھ کر ہم کو دولت مندی یاد آتی ہے اس لیے یہ میرے سامنے سے ہٹا دیا جاوے،رب تعالٰی فرماتاہے :"وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖۤ اَزْوٰجًا مِّنْہُمْ زَہۡرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا"یہ فرمان عالی اس آیت کریمہ پر عمل ہے۔خلاصہ یہ کہ ہمارے گھر میں تکلف شان کی چیز یں نہ رہیں۔