مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت ابوالدرداء سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ نہیں طلوع ہوتا سورج مگر اس کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں ۱؎ پکارتے ہیں سوائے جن و انس کے ساری مخلوق کو سناتے ہیں۲؎ کہ اے لوگو اپنے رب کی طرف آؤ۳؎ جو تھوڑا ہواور کافی ہو وہ اس سے اچھا ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے ۴؎ ان دونوں حدیثوں کو ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کیا۔
شرح
۱؎ اس طرح کہ وہ فرشتے بھی سورج کے ساتھ ہی گردش کرتے ہیں اور ہر جگہ طلوع کے وقت سورج کے ساتھ ہوتے ہیں لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ سورج تو ہر وقت کہیں نہ کہیں طلوع کرتا ہی رہتا ہے جب یہاں دوپہری ہوتی ہے تو کسی اور جگہ صبح سویرا،چونکہ دن نکلنے پر لوگ اپنے کاروبار میں مشغول ہوجاتے ہیں اس لیے صبح کے وقت ہی یہ اعلان مناسب ہوتا ہے۔ ۲؎ یعنی جن و انس کے سوا باقی ساری مخلوق یہ آواز سنتی ہے ان دونوں کوفرشتوں کا یہ کلام حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سنایا جارہا ہے جیسے رب تعالٰی نے اپنا کلام بندوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سنایا تاکہ ان دونوں گروہوں کا ایمان بالغیب رہے کہ ایمان بالغیب پر ہی سزا و جزاء کا دارومدار ہے ان ہی دونوں گروہوں پر ایمان بالغیب واجب ہے۔ ۳؎ یعنی کام کاج میں مشغول ہوکر رب تعالٰی سے غافل نہ ہوجاؤ،ہاتھ کار میں ہو دل یار کے ساتھ ہو،ہر وقت اس کے دروازہ پر رہو،رب تعالٰی فرماتاہے:"فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ"گنہگار ہو تو اس کے دروازے پر،آؤ نیک کار ہو تو آؤکہ اس کے سوا اور کوئی دروازہ نہیں۔ ۴؎یعنی جو رزق مقدار میں تھوڑا ہو اور انسان کی حاجات پوری کردے،اسے پاکر رب تعالٰی سے غافل نہ ہوجاوے وہ اس رزق سے بہتر ہے جو مقدار میں زیادہ ہواور رب تعالٰی سے غافل کردے کہ وہ تھوڑا مال اللہ تعالٰی کی رحمت ہے اور یہ زیادہ مال اللہ کا عذاب ہے۔علم کا بھی یہ ہی حال ہے کہ بقدر ضرورت علم جو خدا رسی کا ذریعہ ہو اس زیادہ علم سے بہتر ہے جو خدا تعالٰی سے غافل کردے عالم کو متکبر بنادے۔خیال رہے کہ فرشتے یہ بات درحقیقت جن و انس کو سناتے ہیں مگر ہمارے حضور کی معرفت سے ان تک پہنچاتے ہیں۔