مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جن چیزوں سے میں اپنی امت پر خوف کرتا ہوں ان میں زیادہ خوفناک نفسانی خواہش ہے اور لمبی امید ۱؎ لیکن نفسانی خواہش تو وہ حق سے روک دیتی ہے ۲؎ اور رہی دراز امید تو وہ آخرت کو بھلا دیتی ہے ۳؎ اور یہ دنیا کوچ کرکے جارہی ہے اور یہ آخرت کوچ کرکے آرہی ہے ۴؎ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بچے ہیں ۵؎ اگر تم یہ کرسکو کہ دنیا کے بچے نہ بنو تو ایسا کرو کیونکہ تم آج عمل کی جگہ میں ہو جہاں حساب نہیں اور تم کل آخرت کے گھر میں ہو گےجہاں عمل نہ ہوگا ۶؎ (بیہقی شعب ایمان)
شرح
۱؎ یعنی جو دل چاہے وہ کرے قانون شرعی کا لحاظ نہ کرے اور یہ خیال کرنا کہ ابھی میری عمر بہت ہے جب مرنے لگوں گا تو نیک کام کرلوں گا یہ دونوں دھوکے ایسے ہیں جن میں عام لوگ گرفتارہیں۔نفس و شیطان گناہ جلدی کراتے ہیں،نیکیوں میں دیر لگواتے ہیں کہ ابھی عمر بہت ہے پھر کرلینا۔ ۲؎ نفسانی خواہش سے وہ خواہشات مراد ہیں جو خلاف اسلام ہوں،جو ان کی پیروی کرے گا ظاہر ہے کہ وہ اللہ و رسول کی اطاعت نہ کرے گا۔ ۳؎ آخرت یاد آتی ہے جب کہ اپنی موت سامنے ہو۔انسان موت کو قریب سمجھ کر آخرت کی تیاری کرتا ہے،جب یہ خیال دل میں بیٹھ جاوے کہ ابھی سو دوسو سال مجھے موت آنی ہی نہیں تو وہ آخرت کی تیاری کیوں کرے گا لہذا یہ فرمان عالی بالکل برحق ہے۔ ۴؎ جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں تب سے دنیا جارہی ہے اور آخرت آرہی ہے،ہر سانس آخرت کی طرف ایک قدم ہے۔شعر غافل تجھے گڑہیال یہ دیتا ہے منادی خالق نے تری عمر کی ایک سانس گھٹا دی ہمیں خبر نہیں کہ دنیا کب ساتھ چھوڑ دے اور آخرت کب آجاوے۔ ۵؎ یہاں بچوں سے مراد تابع،محکوم زیر فرمان لوگ ہیں،راکب و راغب یعنی بعض لوگ دنیا کے طالب اس میں راغب ہیں،بعض آخرت کے طالب اس میں راغب ہیں،انسان دونوں کا طالب نہیں ہوسکتا کہ دونوں ضدیں ہیں۔ ۶؎ یعنی دنیا میں اللہ تمہارا حساب نہیں فرماتا جو بھی چاہو عمل کرلو،بعد مرنے کے عمل کا وقت نہ ہوگا حساب ہی حساب ہوگا لہذا بہتر یہ ہے کہ آج تم اپنا حساب خود کرتے رہو۔خیال رہے کہ حضرات انبیاء اور بعض اولیاء اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں،تلاوت قرآن کرتے ہیں مگر ان اعمال پر ثواب نہیں لہذا یہ حدیث برحق ہے کہ ثواب والا عمل صرف زندگی میں ہی ہوسکتا ہے،ہاں اس کا ثواب مرے بعد بھی پہنچتا رہتا ہےلہذا حدیث پر اعتراض نہیں۔