۱؎ ان جیسی احادیث کی شرح پہلے ہوچکی کہ ان میں بلا ضرورت عمارتیں بنانا ان کے گارے چونے میں پیسہ خرچ کرنا مراد ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی کسی بندے کے مال میں بے برکتی ڈالنا چاہتا ہے تو اسے مکانات گرانے بنانے کا شوق دے دیتا ہے۔اسے اللہ و رسول کی راہ میں خرچ کرنے،حق والوں کے حق ادا کرنے کا خیال ہی نہیں آتا،وہ اس میں لگا رہتا ہے کہ یہ بگاڑو یہ بناؤ۔ضروری عمارات جیسے مسجد،ضرورت کے مکان و دکانیں اس حکم سے خارج ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ لاکھوں روپے کے خرچ سے بنائی،حضرت عثمان غنی نے مسجد نبوی پر بہت روپیہ خرچ کیا۔