Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
52 - 4047
حدیث نمبر 52
 روایت ہے حضرت جبیر ابن نفیر سے ارسالًا ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ  نے کہ مجھے یہ وحی نہیں کی گئی کہ مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہو رہوں۲؎لیکن مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ اپنے رب کی تسبیح بولوں اور سجدہ کرنے والوں میں ہوؤ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو حتی کہ تم کو موت آجائے۳؎(شرح سنہ ابو نعیم)حلیہ بروایت ابی مسلم۴؎
شرح
۱؎ آپ قبیلہ بنی حضرم سے ہیں،آپ نے حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پایا مگر خلافت صدیقی میں ایمان لائے،  ۷۵ھ؁ میں آپ کی وفات ہوئی لہذا یہ حدیث مرسل ہے کہ اس میں صحابی کا ذکر نہیں۔حضرت جبیر سے جو کہ تابعی ہیں حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم سے۔

۲؎ یعنی میری زندگی کا مقصد تجارت اور مال جمع کر نا نہیں،میری زندگی کا مقصد تبلیغ نبوت اور اللہ  کی اطاعت ہے،اپنے پاس بقدر ضرورت کبھی مال رکھنا تجارت کرنا اسی کے تابع ہے۔لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں جن میں ہے کہ حضور صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم فتح خیبر کے بعد ازواج پاک کو سال بھر کا خرچ عطا فرمادیتے تھے یا یہ کہ حضور انور صلی اللہ  علیہ وسلم نے تجارت،بکریاں چرانے کا کام کیا ہے۔ظہور نبوت کے بعد حضور صلی اللہ  علیہ وسلم نے چیزیں خریدیں ہیں فروخت بھی کی ہیں مگر وہ سب عارضی چیزیں تھیں،حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کی زندگی پاک کا مقصد وہ تھا جو آگے ارشاد ہورہا ہے لہذا حضرت عثمان غنی اور دوسرے صحابہ کرام کا تجارتیں کرنا،مال جمع کرنا ممنوع نہیں تھا،اگر مال جمع نہ کیا جاوے تو زکوۃ،حج و عمرہ وغیرہ عبادتیں کیسے کی جاسکتی ہیں۔کام کرنا اور ہے کام میں مشغول ہوجانا کچھ اور۔

۳؎ اس آیت کریمہ میں موت آنے تک تسبیح،نماز اور ہر ممکن عبادات کرنے کا حکم ہے۔یقین سے مراد یقینی چیز یعنی موت ہے خدا کرے مرتے وقت تک کوئی نماز،اللہ  کا ذکر،مسجد کی حاضری،تکبیر اولیٰ،نوافل،کوئی چیز نہ چھوٹے۔حضرات صوفیاء کے نزدیک یقین سے مراد عین الیقین یا حق القین ہے،بعض مفسرین نے فرمایا کہ تسبیح و نماز تو عبادات ہیں ا ور وَاعْبُدْ رَبَّکَ میں عبودیت کا حکم ہے۔عبادت اور عبودیت میں بڑا فرق ہے،عبادت آسان ہے عبودیت مشکل ہے،اﷲ نصیب کرے۔

۴؎ ابو مسلم خولانی بڑے زاہد،عابد و عالم تھے اور تابعین میں سے ہیں،حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق سے ملاقات کی ہے،      ۶۲؁ باسٹھ ہجری میں وفات پائی۔
Flag Counter