۱؎ صہح چنےی ہوئے چبوترہ کو کہتے ہیں۔جب قبلہ بیت المقدس تھا تو یہ ہی جگہ مسجد تھی،تبدیلی قبلہ پر یہ جگہ ویسی ہی چھوڑ دی گئی اور مسجد کی توسیع کردی گئی،اب اس جگہ علم دین سیکھنے والے تارک الدنیا صحابہ رہنے لگے جن کے گھر بار،اولاد،مال وغیرہ کچھ نہ تھا،یہ حضرات اکثر ساٹھ ستر کے درمیان رہتے تھےکبھی اس سے کم وبیش، انہوں نے اپنے کو علم دین سیکھنے، حضور انور کی صحبت شریف میں رہنے کے لیے وقف کیا ہوا تھا،انہیں میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خرچ وغیرہ کے کفیل تھے،ایک پیالہ دودھ وغیرہ کے معجزات انہیں حضرات پر ظاہر ہوئے تھے۔شعر
کیوں جناب بوہریرہ کیسا تھا وہ جام شیر جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ بھر گیا
حضور انور کو حکم الٰہی تھا کہ ان کے ساتھ رہا کرو۔(قرآن مجید)حضور ان سے فرماتے تھے کہ میں بھی تم میں سے ہوں اور آخرت میں تم میرے ساتھ ہو گے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ صوفی اُس صفہ سے بنا ہے یعنی چبوترے پر رہنے والے۔(اشعہ)یہاں اہل صفہ فرمایا اصحاب رسول اللہ نہ فرمایا کہ صفہ والے تارک الدنیا تھے۔
۲؎ یعنی ایک دینار ان سے اہل صفہ کے نام پر ایک دھبہ ہے کہ اہل صفہ تارک الدنیا ہونے چاہیںے،پھر انہوں نے یہ دینار بھی کیوں رکھا لہذا حدیث واضح ہے۔اس سے نہ تو مالدار صحابہ پر اعتراض ہوسکتا ہے نہ خود ان وفات یافتہ حضرات پر۔
۳؎ یعنی اس شخص نے دو دینار چھوڑ کر اپنے نام اہل صفہ پر دو دھبے لگائے کہ دعویٰ ہے ترک دنیا کا اور عمل یہ ہے کہ وہ دو دینار پاس ہیں۔خیال رہے کہ بعض لوگوں کے لیے مالداری اچھی ہوتی ہےکہ اس سے وہ شاکر بن جاتے ہیں اور بعض کے لیے غریبی بہتر کہ اس سے وہ صابر رہتے ہیں،اہل صفہ اس دوسری جماعت سے تھے لہذا یہ فرمان نہایت ہی موزوں ہے جیسے بعض کے لیے جلوت افضل ہے اور بعض کے لیے خلوت بہتر ہے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ ان حضرات کا صفہ میں رہنا گویا اپنے کو فقیر ظاہر کرنا تھا،لوگ انہیں فقیر سمجھ کر خیرات و صدقات دیتے تھے تو یہ لوگ قال سے نہیں بلکہ حال سے سوالی تھے اور جس کے پاس ایک یادو دینار ہوں اسے سوال حرام ہے بلکہ سوال سے حاصل کیا ہوا مال بھی اسے درست نہیں۔جو مالدار فقیروں کا سا لباس رکھے یا جو جاہل عالموں کی سی وضع بنائے،جو غیرصوفی صوفیانہ رنگ میں رہے پھر لوگ اسے فقیر یا عالم یا صوفی سمجھ کر نذرانہ دیں وہ نذرانے اس کے لیے حرام ہیں۔(مرقات)مگر فقیر کے نزدیک پہلی توجیہ جو اشعۃ اللمعات نے بیان فرمائی بہت ہی قوی ہے کیونکہ حضرات صحابہ سارے ہی عادل ہیں کوئی فاسق نہیں اور حرام کام یا حرام خوراک کا مرتکب فاسق ہوتا ہے۔