مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت عقبہ ابن عامر سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا جب تم دیکھو کہ اللہ تعالٰی کسی بندے کو اس کے گناہوں کے باوجود دنیا دے رہا ہے جو بھی وہ بندہ چاہتا ہے تو یہ ڈھیل ہے ۱؎ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ جب وہ بھول گئے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے حتی کہ جب وہ لوگ دیئے ہوئے پر خوش ہوگئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ مایوس ہوگئے۲؎ (احمد)
شرح
۱؎ یعنی اگر کوئی بندہ گناہ کرتا رہے مگر حق تعالٰی کی طرف سے بجائے پکڑ کے نعمتیں ملتی رہیں تو یہ نعمتیں نہیں بلکہ عذاب ہیں کہ اگر پہلی بار ہی اس کی پکڑ ہوجاتی تو یہ توبہ کرلیتا مگر یہ سمجھا کہ میرے اس گناہ سے رب راضی ہے پھر اور زیادہ گناہ کرتا ہے حتی کہ گناہوں میں حد سے بڑھ کر کافرہوجاتا ہے،پھر پکڑا جاتا ہے جیسے فرعون کا حال ہوا۔استدراج کے معنی ہیں سیڑھی پر چڑھانا۔ درجہ سیڑھی کے ڈنڈے کو کہتے ہیں،چونکہ مہلت سے بندہ گناہوں میں ایسی ترقی کرتا ہے جیسے آدمی سیڑھی پر چڑھتا ہے اس لیے مہلت کو استدارج کہا جاتا ہے ۔رب فرماتا ہے :"سَنَسْتَدْرِجُہُمۡ مِّنْ حَیۡثُ لَایَعْلَمُوۡنَ"۔ ۲؎ اس آیت میں گزشتہ کافر قوموں کا ذکر ہے جیسے قوم فرعون وغیرہ۔