مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے انہیں سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کامیاب ہوگیا وہ جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے اللہ سے خالص کیا ہے اور اپنے دل کو سلامت رکھا ۱؎ اور اپنی زبان کو سچا،اپنے دل کو مطمئن۲؎ اور اپنی طبیعت کو سیدھا رکھا اور اپنے کان کو سننے والا اپنی آنکھ کو دیکھنے والا بنایا۳؎ لیکن کان تو وہ چین کی خبر ہے ۴؎ اور لیکن آنکھ تو وہ اس چیز کو قائم کرنے والی ہے جسے دل حفاظت کرتا ہے ۵؎ کامیاب ہوگیا وہ جس نے اپنے دل کو حفاظت کرنے والا بنایا۶؎(احمد،بیہقی شعب الایمان)
شرح
۱؎ یعنی دل کو دل کی بیماریوں حسد،کینہ،بغض،بدعقیدگیوں اور غفلت کی چیزوں سے سلامت رکھا۔رب فرماتاہے :"اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیۡمٍ"۔صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ سلیم کے معنی ہیں سانپ کا ڈسا ہوا۔دل وہ ہی پیارا ہے جسے عشق مولٰی کے سانپ نے ڈس کر دنیا سے مردہ کردیا۔ ۲؎ نفس مطمئنہ وہ ہے جو اﷲ کی محبت اس کی اطاعت سے سرشار ہو۔طبیعت سیدھی وہ ہے جو تکلیف و آرام کسی حال میں یار کے دروازے سے نہ ہٹے،دنیا کی کوئی ہوا اسے جنبش نہ دے سکے۔ ۳؎ یعنی اپنے کان سے یار کی بات سنے آنکھ سے قدرت کے نظارے کرے۔شعر تجھی کو دیکھنا تیری ہی سننا تجھ میں گم ہونا حقیقت معرفت اہل طریقت اس کو کہتے ہیں ۴؎ قمع قاف کے فتحہ میم کے کسرہ سے برتن کے ڈھکنے میں رکھی ہوئی چیز یا برتن کا منہ کہ برتن میں جو چیز جاتی ہے اس کے منہ سے جاتی ہےجو نکلتی ہے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔یعنی کان دل کا راستہ ہے اس راستہ سے اچھی باتیں دل تک پہنچتی ہیں۔ ۵؎ یعنی آنکھ دل کا دوسرا راستہ ہے کہ اس کے ذریعہ دل تک چیزیں پہنچتی ہیں محبوب کو آنکھ دیکھتی ہے تو دل محبت کرتا ہے۔کسی نے کہا ہے شعر دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی مطلب یہ ہے کہ جسے دل محفوظ رکھتا ہے اسے آنکھ ہی تو دل میں ثابت کرتی ہے،وہاں تک پہنچاتی ہے لہذا اپنے کان اور آنکھ کو صاف و پاک رکھو تاکہ ان راستوں سے دل تک اچھی چیزیں ہی پہنچا کریں۔ ۶؎ القلب یا تو پیش سے ہے یعنی جس کے دل کو اﷲ کی طرف سے محافظ بنایا گیا،یا فتحہ سے ہے یعنی جس نے اپنے دل کو محافظ بنایا کہ دل میں اللہ رسول کی محبت اس کی اطاعت کا جذبہ محفوظ رکھا،نیز بزرگوں کی وعظ و نصیحت یا درکھی۔ایسے قلب کو یقین سے ترقی ہو کر عین الیقین بلکہ حق الیقین عطا ہوتا ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الْیَقِیۡنُ"۔مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یقین سے مراد موت ہے کہ وہ یقینی چیز ہے،نیز موت سے ہر کافر کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہوجاتا ہے۔