Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم
41 - 4047
حدیث نمبر 41
 روایت ہے حضرت انس  رضی اللہ  عنہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم سے راوی فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن انسان بھیڑ کے بچے کی طرح لایا جاوئے گا تو اسے بارگاہِ الٰہی میں کھڑا کیا جاوے گا ۱؎ تب رب تعالٰی اس سے فرمائے گا کہ میں نے تجھے عطائیں دیں،تجھے لونڈی غلام بخشے اور تجھ پر بہت انعام کیے۲؎ تو تو نے کیا کیا۳ ؎تو وہ عرض کرے گا کہ یا رب میں نے وہ جمع کیں اور انہیں بڑھایااور جتنا تھا اسے زیادہ کرکے چھوڑ آیا ۴؎ مجھے لوٹا دے کہ میں تیری بارگاہ میں وہ سارا لے آؤں ۵؎ اس سے رب تعالٰی فرمائے گا کہ مجھے دکھا تو نے آگے کیا بھیجا؟ وہ کہے گا یارب میں نے جمع کیا اور اسے بڑھایا اور اب سے زیادہ کرکے چھوڑ آیا تو تو مجھے لوٹا دے میں تیرے پاس سارا لے آؤں وہ ایسا بندہ ہوگا جس نے کوئی بھلائی آگے نہ بھیجی ہوگی ۶؎ تو اسے آگ کی طرف لے جایا جاوے گا۔(ترمذی)اور اسے ضعیف فرمایا۔
شرح
۱؎ یہاں انسان سے مراد غافل مالدار آدمی ہے جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔لائے جانے سے مراد حساب و کتاب کے لیے بارگاہ الٰہی میں پیش کیا جانا ہے،اﷲ کے مقبول بندے بڑی عزت و احترام سے لائے جائیں گے،رب تعالٰی فرماتاہے:"یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیۡنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا وَّ نَسُوۡقُ الْمُجْرِمِیۡنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا"لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں۔

۲؎ اعطیت،خولت،انعمت قریبًا ہم معنی ہیں۔یہاں فرق یوں ہے کہ میں نے تجھے دنیا کا مال و متاع دیا،تجھے لونڈی غلام بخشے اور تجھ پر کتاب و انبیاء کرام بھیجے۔(مرقات)اشعۃ اللمعات نے فرمایا کہ انعام سے مراد دنیاوی نعمتیں ہیں۔

۳؎ یعنی تو نے ان نعمتوں کاشکریہ کیا ادا کیا ؟ خیال رہے کہ ہر نعمت کا شکریہ علیحدہ ہے۔اس کی تفصیل ہماری تفسیر نعیمی دوسرے پارے"وَاشْکُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَکْفُرُوۡنِ"کے ماتحت دیکھو۔اعضاء کا شکریہ بدنی عبادات ہیں،مال کا شکر یہ صدقات و خیرات قرآن مجید و غیرہ،ایمانیات کا شکریہ ان پر عمل کرنا ہے،حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کی کرم نوازیوں کا شکریہ حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل،آپ سے عشق و محبت،کثرت سے درود شریف پڑھنا ہے۔محسن کو دعائیں دینا بھی شکریہ ہے۔مولانا فرماتے ہیں شعر

چونکہ ذاتش ہست محتاج الیہ		زاں سبب فرمود حق صلوا علیہ

۴؎ یہ ہے غافل کی سوانح عمری،محنت سے جوڑنا، مشقت سے حفاظت کرنا،حسرت سے چھوڑنا یہ گفتگو اس سے ہے جس نے دنیا میں مال کی زکوۃ،فطرانہ،قربانی ادا نہ کی سب کا سب جمع ہی کیا۔حقو ق اللہ  او ر حقوق الناس کا خیال نہ کیا اب کہے گا کہ مجھے موقعہ دے کہ وہ سارا مال تیری بارگاہ میں حاضر کردوں تو قبول فرمالے حالانکہ اب عمل کا وقت نہیں رہا۔

۵؎ یعنی دنیا میں تو نے صدقہ و خیرات کتنی کی ؟ جو کہ تجھے آج کے دن کام آجاتی،یہ جگہ  عمل کی نہیں نہ یہ وقت عمل کا ہے اب تو کیے ہوئے کا حساب دو۔

۶؎ اس جملہ نے گزشتہ پوری حدیث کی شرح لکھ دی کہ یہاں اس شخص کا ذکر ہے جو فاسق و فاجر تھا،زکوۃ و خیرات و حقوق ادا نہ کرتا تھا۔
Flag Counter