مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مجھ پر میرے رب نے پیش فرمایا کہ میرے لیے مکہ کی زمین کو سونا بنادے ۱؎ تو میں نے عرض کیا یارب نہیں ۲؎ لیکن میں ایک دن سیر ہوا کروں اور ایک دن بھوکا رہوں تو جب بھوکا رہوں تو تیری طرف عاجزی کروں تجھے یاد کروں اور جب سیر ہوؤں تو تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں ۳؎ (احمد،ترمذی)
شرح
۱؎ یعنی رب تعالٰی نے مجھ پر دو چیزیں پیش فرمائیں: ایک یہ کہ مکہ معظمہ کے پہاڑوں ، وہاں کے پتھروں، کنکروں کو سونے کا بنا دیا جائے ،دوسرے یہ کہ سارا سونا میری اکیلے کی واحد ملکیت رہے کسی اور کااس پر قبضہ نہ ہو۔ بطحاء کہتے ہیں اس میدان کو جس میں کنکر پتھر پہاڑ ہوں یعنی پتھریلی زمین۔ ۲؎ خیال رہے کہ اس کے متعلق حضور سے مشورہ فرمایا تھا آپ کو اختیار دیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم اس سب کو سونا کردیں۔ مشورہ میں اختلاف کرنے کا حق ہوتا ہے اس کا ماننا لازم نہیں ہوتا اس لیے عرض کیا کہ نہیں۔یہ نہیں بھی بارگاہ الٰہی میں بہت مقبول ہوئی اس نہیں پر ہزارہا ہاں قربان ہوں۔معنوی طور پر اللہ تعالٰی نے وہاں سونا بنا ہی دیا۔اب زمین حجاز میں سونا نکل رہا ہے خود حضور سونے کی کان ہیں کہ ان کے دم سے لاکھوں حجاج وہاں پہنچتے ہیں اور کروڑوں روپیہ اہلِ مکہ کو دے آتے ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر حضور چاہتے تو مکہ کے پہاڑ سونا بن جاتے مگر چاہا نہیں لہذا وہ آیت کریمہ"اَوْ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآءِ"الخ "قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا"حضور کا عاجز ہونا بیان نہیں کرتی ورنہ یہ حدیث اس کے خلاف ہوگی۔ ۳؎ یعنی اگر میں اتنے سونے کا مالک ہوجاؤں تو صرف بندہ شاکر بنوں گا مگر مسکینیت میں صابر بھی ہوں گا اور شاکر بھی لہذا میں امیری پر فقیری کو ترجیح دیتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ حضور کی فقیری غریبی اختیاری ہے ہماری طرح بے اختیار ی نہیں۔حضرات انبیاء کرام کی موت بھی اختیاری ہوتی ہے کہ وفات کے قریب انہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا رب کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں،دیکھو موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا تھا کہ بیل کی کھال پر ہاتھ پھیرو جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے فی بال ایک سال ،ہمارے حضور کو اختیار دیا گیا جب حضور نے عرض کیا اللہم بالرفیق الاعلٰی تب وفات دی گئی۔