مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
رو ایت ہے حضرت ابو امامہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا میرے دوستوں میں زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مسلمان ہے جو کم سامان والا نماز کے بڑے حصہ والا ہو ۱؎ اپنے رب کی عبادت خوب اچھی طرح کرے اور خفیہ اس کی اطاعت کرے اور لوگوں میں چھپا ہوا رہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہ کیے جاویں۲؎ اس کا رزق بقدر ضرورت ہو اس پر صبر کرے ۳؎ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے چٹکی بجائی فرمایا اس کی موت جلد آجاوے ۴؎ اس پر رونے والیاں کم ہوں اس کی میراث تھوڑی کم ہو ۵؎ (احمد،ترمذی،ابن ماجہ)
شرح
۱؎ یعنی اس کے پاس اپنی ذات کے لیے سامان دنیا کم ہو عبادات زیادہ ہوں لہذا حضرت عثمان اور دوسرے امیر صحابہ اس میں داخل نہیں کہ ان کے پاس مال دین کے لیے تھے ا پنی ذات کے لیے نہ تھے۔عمر فاروق اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک کرتا دھو دھو کر پہنتے تھےرضی اللہ عنہم۔ ۲؎ یعنی وہ خود اپنی شہرت و عزت کی کوشش نہ کرے اگر رب تعالٰی اسے قدرتی طور پر شہرت دے دے تو اس کی مہربانی لہذا اس حدیث میں مشہور اولیاء اللہ و علماء دین جن کی چوکھٹوں کو دنیا اب بھی چومتی ہے ضرور داخل ہیں کہ یہ شہرت انہوں نے خود نہ چاہی رب نے انہیں مشہور کردیا یہ بشارت عاجلہ کہلاتی ہے۔ ۳؎ مقصد یہ ہے کہ اگر اسے توانگری نہ ملے تو بے صبری نہ کرے راضی بہ رضا رہے۔ ۴؎ یعنی بہت آسانی سے ان کی جان نکل جائے جس کے دل میں دنیا کی محبت بہت ہواس کی جان بڑی مصیبت سے نکلتی ہے،اسے نزع کی تکلیف کے ساتھ دنیا چھوٹنے کا غم بھی ہوتا ہے،مؤمن کو موت کے وقت حضور سے ملنے کی ایسی خوشی نصیب ہوتی ہے کہ وہ شدت نزع کو محسوس نہیں کرتا،وہ سمجھتا ہے کہ زندگی میں مجھے مدینہ منورہ کی حاضر ی مشکل تھی اب میری قبر ہی مدینہ میں بن جائے گی یہ مطلب نہیں کہ اس کی عمر کم ہو۔(مرقات)لہذا یہ فرمان اس حدیث کے خلاف نہیں کہ مؤمن کی دراز عمر اﷲ کی رحمت ہے۔ ۵؎ یہ کمی یا اس لیے ہو کہ وہ غریب اور غیر مشہور تھا یا اس لیے کہ اس نے رونے پیٹنے سے زندگی ہی میں منع کردیا تھا اور مال اﷲ کی راہ میں زندگی میں بہت کچھ خرچ کردیا تھا۔