مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے پھر اٹھے اس حالت میں کہ چٹائی نے آپ کے جسم اطہر میں اثر کیا ہوا تھا ۱؎ تب ابن مسعود نے عرض کیا یارسول اللہ ہم کو آپ اجازت دے دیتے کہ ہم حضور کے لیے بستر بچھادیا کرتے اور سب انتظامات کردیتے ۲؎ تو فرمایا مجھے دنیا سے کیا تعلق میں اور دنیا نہیں ہیں مگر اس سوار کی طرح جو ایک درخت کے نیچے سایہ لے پھر چلا جائے اور درخت کو چھوڑ جائے ۳؎ (ترمذی،ابن ماجہ)
شرح
۱؎ اس وقت جسم اطہر پر قمیض بھی نہ تھی صرف تہبند مبارک زیب تن فرمائے ننگی چٹائی پر آرام فرمایا تھا۔شعر بوریا ممنون خواب راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امتش ۲؎ یہاں لو شرط کے لیے نہیں بلکہ تمنا اور آرزو کے لیے ہے یعنی کاش کہ حضور ہم غلاموں کو اجازت دے دیتے تو ہم ہر قسم کے آرام کا انتظام حضور کے لیے کردیتے۔اعلٰی لباس،بہترین نرم بستر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سادگی ہم غلاموں سے دیکھی نہیں جاتی۔ ۳؎ یعنی جیسے یہ سوار اتنی دیر آرام کے لیے اپنا بستر وغیرہ نہیں کھولتا بلکہ زمین پر ہی لیٹ کر دھوپ ڈھل جانے پر چل دیتا ہے ایسے ہی ہمارا حال ہے کہ ہم کونین کے مالک ہیں مگر اپنے لیے کچھ نہیں رکھتے۔لہذا حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ فرمانے کے بعد دنیا کو اور اپنی امت کو چھوڑ دیا،ان سب سے بے تعلق ہوگئے،اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو چھوڑ دیں تو ہم ہلاک ہوجائیں،سورج دنیا کو چھوڑ دے تو دنیا اندھیری ہوجاوے،روح بدن کو چھوڑ دے توبدن مر جاوے،جڑ درخت کو چھوڑ دے تو درخت سوکھ جاوے،اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو چھوڑ دیں تو کوئی اﷲ اﷲ کہنے والا نہ رہے۔