مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے انہیں سےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لے گئے ۱؎ ہم حضور کے ساتھ تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند عمارت دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے ؟ ۲؎حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ یہ فلاں انصاری صاحب کا ہے ۳؎ تو حضور خاموش ہوگئے اور یہ بات دل شریف میں رکھ لی۴؎حتی کہ جب اس عمارت کا مالک حاضر ہوا تو آپ کو بھرے مجمع میں سلام کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا ۵؎ انہوں نے یہ کئی بار کیا حتی کہ ان صاحب نے حضور انور میں اپنے سے غصہ محسوس کرلیا ۶؎ تو حضور کے صحابہ رضی اللہ عنھم سے اس کی شکایت کی ۷؎ اور کہا کہ خدا کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر پاتا ہوں لوگوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے تو تمہاری عمارت دیکھی تھی تو وہ شخص عمارات کی طرف گیا اور اسے ڈھاکر زمین کے برابر کردیا ۸؎ ایک بار پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو وہ عمارت نہ دیکھی ۹؎ فرمایا اس گنبد کا کیا ہوا ۱۰؎ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے مالک نے آپ کی بے توجہی کی شکایت کی ہم نے اسے خرگ دی تو اس نے وہ ڈھا دیا تو فرمایا کہ ہر تعمیر اس کے بانی پر وبال ہے ۱۱؎ سوائے اس کے یعنی سوائے اس کے جس کی اسے ضرورت ہو ۱۲؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ حضور انور یا تو مدینہ منورہ سے باہر بستی میں تشریف لے گئے تھے یا اپنے دولت خانہ سے مدینہ پاک کے کسی محلہ میں تشریف لے گئے وہاں یہ واقعہ پیش آیا،دوسرا احتمال قوی ہے۔ ۲؎ یہ سوال اظہار ناراضی کے لیے ہے یعنی یہ کیا حرکت ہے حضرات صحابہ نے جو جواب دیا وہ اس سوال کا جواب نہیں بلکہ اس کے متعلقات میں سے یعنی یہ حرکت فلاں شخص کی ہے۔ ۳؎ یہ عرض کرنا غیبت نہیں بلکہ اصلاح ہے۔معلوم ہوا کہ مرید کی شکایت شیخ سے کرنا یا شاگرد کی شکایت استاد سے کرنا اصلاح کے لیے بالکل درست ہے غیبت نہیں۔ ۴؎ حضور ناراض ہوئے مگر ناراضی کا اظہار نہ فرمایا بلکہ دل میں رکھ لی۔ ۵؎ ان کے سلام کا جواب یا تو حضور نے دیا ہی نہیں یا دیا مگر دل میں جس کی انہیں خبر نہ ہوئی۔معلوم ہوا اظہار غضب اور اصلاح کے لیے سلام کا جواب نہ دینا جائز،ہرسلام کا جواب دینا فرض نہیں ہوتا،بعض صورتوں میں جواب دینا ممنوع بھی ہوتا ہے لہذا اس عمل شریف پر یہ اعتراض نہیں کہ یہ حکم قرآن سلام کا جواب دینا فرض ہے تو حضور نے فرض کیوں ترک کیا یہ نکتہ یاد رکھا جائے۔ ۶؎ ان صاحب نے پہلے تو سمجھا کہ حضور انور نے اتفاقًا جواب نہ دیا یا حضور کسی فکر میں ہیں میرا سلام سنا نہیں مگر جب بار بار سلام کہا اور جواب نہ پایا تو وہ سمجھے کہ مجھ پر ناراضی ہے۔ظاہر یہ ہے کہ حاضرین میں سے کسی نے جواب نہ دیا۔جس سلام کو حضور رد فرمادیں اسے قبول کون کرے،حضرت کعب ابن مالک کا جب بائیکاٹ ہوا ہے تو پچاس دن تک کسی نے ان کے سلام کا جواب نہ دیا۔ ۷؎ حضور کی شکایت نہیں کی بلکہ اپنی محرومی کی شکایت مع حکایت کی کہ لوگو میں تو لٹ گیا آج حضور مجھ سے ناراض ہوگئے۔ ۸؎ یعنی ہمارا اندازہ یہ ہے کہ حضور انور نے اس بلند عمارت کو ناپسند فرمایا یہ ہی وجہ ہے تم سے بے توجہی فرمانے کی اور تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ۹؎ یہ ہے حضرات صحابہ کا عشق رسول کہ حضور انور نے انہیں نہ تو ڈھانے کا حکم دیا نہ یہ فرمایا کہ عمارتیں بنانا جائز نہیں ان حضرات کو صرف اندازہ ہی ہوا ہے کہ شاید حضور اس عمارت کی وجہ سے مجھ سے ناراص ہوگئے تو سوچا کہ یہ عمارت میرے اور محبوب کے درمیان آڑ بن گئی ڈھادی۔اس ڈھانے میں مال کا برباد کرنا نہیں اور فضول خرچی نہیں بلکہ یار کو منایا ہے،اگر عمارت ڈھانے سے حضور راضی ہوجائیں تو ان شاءاﷲ سودا سستا ہے۔جناب خلیل رضا ء الٰہی کے لیے فرزند کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔یہاں ظاہری فتویٰ نہیں چلتے یہ دل جلوں کے معاملے ہیں۔شعر عقل می گوید کہ خود راپیش کن عشق می گوید کہ ترک خویش کن ان حضرات نے اس عمارت کا بالائی حصہ نہ گرایا بلکہ جڑ بنیاد سے مٹا دیا تاکہ اس حجاب کی پوری طرح بیخ کنی ہوجائے۔ ۱۰؎ یعنی وہ گنبد بالکل ہی غائب ہوگیا یہ کیسے ہوا۔حضور انور کا یہ سوال اگلے مضمون کی تمہید کے لیے ہے ورنہ حضور ہر ایک کے عمل دل حال سے خبردار ہیں۔ ۱۱؎ اگر وبال سے مراد گناہ ہے تو عمارات سے مراد وہ عمارتیں ہیں جو بلا ضرورت فخر وتکبر کے لیے بنائی جائے کہ یہ عمل ناجائز ہے، فخر و تکبر کا ہر کام حرام ہے اور اگر وبال سے مراد آخرت کا بوجھ ہے تب بلا ضرورت کی ہر عمارت اس میں داخل ہے خواہ فخریہ ہو یا نہیں حتی کہ بلا ضرورت مسجد بنانا بھی ثواب نہیں بلکہ کبھی گناہ ہے۔غیر آباد جگہ کوئی نماز و اذان ادا کرنے والا نہ ہو مسجد بنادینا محض بکاںر ہے،ایک مسجد کے قریب دوسری مسجد بنادینا کہ نہ وہ آباد رہے نہ یہ آباد ہو گناہ ہے،بہرحال یہ فرمان عالی وسیع ہے عمارت کے وبال ہونے کی بہت صورتیں ہیں۔ ۱۲؎ ضرورت خواہ دینی ہو یا دنیاوی مگر دنیاوی ضرورت کے لیے عمارت بنانا مباح ہے جیسے اپنے مکان دوکانیں اور دینی ضرورت کے لیے بنانا ثواب جیسے مسجدیں مدرسے،خانقاہیں بزرگان دین کے مزارات پر قبے جب کہ وہاں زائرین کا ہجوم رہتا ہو ان کی آسائش، تلاوت قرآن مجید وغیرہ کے لیے وہاں عمارت بنانا ثواب ہے۔اس ما لابد منہ میں بھی بڑی گنجائش ہے۔