۱؎ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ جو چیز اللہ ورسول سے غافل کردے وہ دنیا ہے یا جو اﷲ و رسول کی ناراضی کا سبب ہو وہ دنیا ہے،بال بچوں کی پرورش،غذا لباس،گھر وغیرہ حاصل کرنا سنت انبیاء کرام ہے یہ دنیا نہیں۔اس معنی سے واقعی دنیا اور دنیا والی چیزیں لعنتی ہیں۔
۲؎ یہ استثناء منقطع ہے کیونکہ یہ چیزیں دنیا نہیں ہیں۔اللہ کے ذکر سے مراد ساری عبادات ہیں۔والًا بنا ہے ولی سے بمعنی قرب یا محبت یا تابع ہونا یا سبب لہذا اس جملہ کے چار معنی ہیں: وہ حضرات انبیاء و اولیاء جو اللہ سے قریب کردیں یا اللہ تعالٰی ان سے محبت کرتا ہے،یا جو ذکر الٰہی سے قریب کردے،یا جو ذکر اﷲ کے تابع ہے،یا جو ذکر اﷲ کا سبب ہے۔(اشعہ)یعنی اﷲ کا ذکر اﷲ کے محبوب بندے علماء طلباء اگرچہ دنیا میں ہیں مگر دنیا نہیں ہیں یہ تو اﷲ کے محبوب ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اﷲ کا ذکر ہر عبادت ہر سعادت کا سر ہے جیسے بدن کے لیے جان ضروری ہے ایسے ہی مؤمن کے لیے ذکر ا ﷲ لازمی ہے۔ذکر اﷲ سے دنیا کا بقاء آسمان و زمین کا قیام ہے۔(مرقات)جب ذاکرین فنا ہوجائیں گے تو قیامت آجاوے گی۔