روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون ہے جو مجھ سے یہ چند باتیں لے لے پھر ان پر عمل کرے یا اسے سکھا دے جو ان پر عمل کرے ۱؎ میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں ہوں تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر پانچ چیزیں گنیں ۲؎ فرمایا حرام چیزوں سے بچو تمام لوگوں میں بڑے عابد ہوجاؤگے ۳؎ اور اﷲ نے جو تمہاری قسمت کردیا اس پر راضی رہو لوگوں سے غنی ہوجاؤگے ۴؎ اور اپنے پڑوس سے اچھا سلوک کرو کہ مؤمن ہوجاؤگے ۵؎ اور لوگوں کے لیے وہ ہی چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو مسلمان ہوجاؤ گے۶؎ اور زیادہ ہنسو نہیں کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے ۷؎ (احمد،ترمذی)اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے ۸؎
شرح
۱؎ اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ علم دین بہرحال اعلٰی نعمت ہے اگر عمل بھی نصیب ہوجائے تو سبحان اللہ!، بغیر عمل بھی علم نعمت ضرور ہے،نیز بے عمل عالم پر تبلیغ ضروری ہے اور اسے تبلیغ کا ثواب ضرور ملے گا کیونکہ فرمایا گیا کہ ان باتوں پر یا عمل کرلے یا عاملین کو پہنچائے۔(اشعہ)ہوسکتا ہے کہ او بمعنی بل ہو یعنی خود عمل کرے بلکہ عمل کرنے والوں کو پہنچا بھی دے۔ (مرقات) ۲؎ یا میری انگلیاں شمار فرمائیں یا انگلیوں پر یہ باتیں شمار فرمائیں،چونکہ یہ پانچوں باتیں ترتیب وار ہیں کہ بعض بعض سے پہلے ہیں اس لیے ترتیب وار انگلیوں پر گنائیں۔ ۳؎ حرام چیزوں حرام کاموں سے بچنا تقویٰ کا پہلا درجہ ہے اس لیے حضور انور نے اسے پہلے بیان فرمایا۔آج کل لوگ بہت ورد وظیفے نوافل کو ہی تقویٰ سمجھتے ہیں،ان پر عامل ہوتے ہیں مگر جھوٹ،غیبت،دوسروں کا حق دبانے سے پرہیز نہیں کرتے سخت غلطی کرتے ہیں۔پہلے جسم و کپڑے ناپاکیوں سے پاک کرو پھر نماز پڑھو،برائیوں سے بچنا بڑی عبادت ہے۔ ۴؎ اس فرمان عالی کا مطلب یہ نہیں کہ ترقی کی کوشش نہ کرو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہو بلکہ مقصد یہ ہے نہ تو دوسروں پر حسد کرو نہ دنیاوی عروج نہ ملنے پر کف افسوس ملا کرو،نہ رب تعالٰی کی شکایت کرو کہ فلاں کو اتنا دیا ہم کو کم۔حضور غوث الثقلین سید شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں تیری بھاگ دوڑ سے مقسوم سے زیادہ نہ ملے گا اور تیری قناعت کی وجہ سے کم نہ ملے گا اس لیے راضی بہ رضا رہ۔(مرقات)امام ابوالحسن شاذلی فرماتے ہیں کہ دو چیزوں سے مایوس ہوجاؤآرام سے رہو گے:ایک یہ کہ تم کو دوسروں کے نصیب کی چیزیں مل جاوے گی،دوسرے یہ کہ تمہیں تمہارے نصیب سے زیادہ مل جاوے گا۔(مرقات) ۵؎ یعنی اگر تمہارا پڑوسی تم سے برائی بھی کرے مگر تم اس سے بھلائی کرو تو مؤمن کامل ہوجاؤگے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی شرارت و فتنوں سے محفوظ نہ ہوجاوے اسے امان نہ ہوجائے۔ ۶؎ یہاں اسلام علاوہ ایمان کے اور صفت ہے یعنی تم جیسے اپنا بھلا چاہتے ہو ویسے ہی دوسروں کا بھلا چاہو اور جیسے برتاوا اپنے ساتھ چاہتے ہو ویسا ہی برتاوا تم دوسروں کے ساتھ کرو،جو بات اپنے لیے نا پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے ساتھ نہ کرو تو تم مسلم یعنی سلامتی والے مسلمان بن جاؤگے۔ ۷؎ یہاں ہنسنے سے مراد ٹھٹھہ مار کر ہنسنا ہے اور دل کی موت سے مراد غفلت ہے یعنی زیادہ وقت ہنسی قہقہہ میں گزارنا دل میں غفلت پیدا کرتا ہے۔خیال رہے کہ مسکرانا اچھی چیز ہے قہقہہ بری چیز،تبسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی جب کسی سے ملو مسکرا کر ملو۔شعر جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے اُس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام ۸؎ اس کی اسناد عن حسن عن ابی ہریرہ ہے اور خواجہ حسن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو پایا نہیں مگر ایک اسناد عن مکحول عن واثلہ ابن اسقع ہے وہ اسناد متصل قوی،نیز یہ حدیث بہت سی اسنادوں سے مروی ہے لہذا یہ حدیث حسن ہے اور اگر ضعیف بھی ہو تو فضائل اعمال میں حدیث ضعیف قبول ہے۔(مرقات)