Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد پنجم
7 - 1040
حدیث نمبر 7
روایت ہے حضرت ابو سعید خدری سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دنیا میٹھی اور ہری بھری ہے ۱؎اور یقینًا اللہ تعالٰی تم کو اس میں دوسروں کے پیچھے مالک کرے گا۲؎ تو دیکھے گا کہ کیا عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے احتیاط کرو ۳؎ اور عورتوں کے بارے میں محتاط رہو کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کے متعلق ہو۴؎(مسلم)
شرح
۱؎ یعنی دنیا دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی ہے دل کو پسند آتی ہے چونکہ اہل عرب سبزے کو بہت ہی پسند کرتے ہیں اس لیے اسے سرسبز فرمایا گیا،نیز اسے سبز فرمانے میں اشارہ ہے کہ دنیا قریب الفناء ہے جیسے سبزہ بہت جلد خشک ہوجاتا ہے ایسے ہی دنیا بہت جلد ختم ہوجاتی ہے۔

۲؎ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جیسے دنیا تم سے پہلے دوسروں کے پاس تھی پھر ان سے منتقل ہو کرتمہارے پاس آئی،تم گزشتہ لوگوں کے خلیفہ بنے ایسے ہی تم سے منتقل ہو کر دوسرے کے پاس پہنچے گی۔شعر

چناں کہ دست بدست آمد است ملک بما		بدست یک دگراں ہم چنیں بخواہد رفت

تم پچھلوں کے خلیفہ ہو،آئندہ نسلیں تمہاری خلیفہ بنیں گی،یا یہ مطلب ہے کہ دنیا کا مالک حقیقی تو حق تعالٰی ہی ہے،تم سب اس کے برتنے میں اس کے خلیفہ یا وکیل ہو،لہذا مالک کی مرضی کے بغیر اسے استعمال نہ کرو،یا صحابہ کرام کو پیش گوئی ہے کہ میرے بعد عرب و عجم کی دولتیں ممالک تمہارے قبضہ میں آنے والے ہیں،ذرا درست رہنا۔

۳؎ یعنی اس سے دھوکا نہ کھاؤ یا ناجائز طور پر استعمال نہ کرو یا اس میں مشغول ہو کر بھول نہ جاؤ اسے دینا بھی آتا ہے اور چھیننا بھی، جوسی سکتا ہے وہ ادھیڑ بھی سکتا ہے کیونکہ ع ہر کہ داند دوخت او داند درید۔ دنیا کو ایسے استعمال کرو جیسے عقل مند مکھی شہد لیتی ہے کہ کنارہ میں رہ کر چوس لیتی ہے اگر اس میں گرے تو مرجائے دنیا جسم پر رہے دل میں نہ آئے تم دنیا میں رہو،تم میں دنیا نہ رہے۔

 ۴؎ اس فرمان عالی میں اس قصہ کی طرف اشارہ ہے کہ ایک اسرائیلی نے اپنے چچا سے درخواست کی کہ مجھے اپنی بیٹی بیاہ دو۔اس نے انکار کیا اس کے بھتیجے نے اسے قتل کردیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کرے اور اس کے مال کا وارث بن جائے،اسی واقعہ پر ذبح گائے کا واقعہ پیش آیا جو سورۂ بقرہ میں مذکور ہے۔( مرقات و لمعات) یا اس میں بلعام ابن باعورا کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جسے اسم اعظم یاد تھا اور وہ مقبول الدعاء تھا جب موسیٰ علیہ السلام نے قوم جبارین پر لشکر کشی کی تو بلعام کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام پر بددعا کرنے کے لیے اس سے درخواست کی،وہ نہ مانا تب قوم نے اس کے سامنے حسینہ عورت پیش کی اور کہا کہ اگر تو موسیٰ علیہ السلام پر بددعا کرے تو ہم اس کا نکاح تجھ سے کردیں تب اس نے موسیٰ علیہ السلام پر بددعا کرنی چاہی جو خود اس پر پڑی اور اس کی زبان کتے کی طرح باہر نکل پڑی جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے:" فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ"الایہ۔اس کا مفصل واقعہ تفاسیر میں اور اسی جگہ مرقات میں مذکور ہے۔ اس صورت میں یا تو فتنہ سے مراد بڑا فتنہ ہے یا اولیت سے مراد اضافی اولیت ہے نہ کہ حقیقی کیونکہ بنی اسرائیل میں معمولی فتنے اس سے پہلے بھی ہوچکے تھے۔
Flag Counter