۱؎ سالم و عتبہ دونوں تابعی ہیں عویم صحابی۔
۲؎ عویم ابن ساعدہ صحابی ہیں، انصاری اوسی ہیں، دونوں بیعت عقبہ میں شریک ہوئے بدروتمام غزوات میں شامل رہے عہد فاروقی میں وفات پائی ۶۵ سال عمر شریف ہوئی آپ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایات لیں۔(مرقات وا کمال)
۳؎ یعنی عبدالرحمان اپنے والد سالم سے راوی اور سالم اپنے والد عتبہ سے راوی جو عبدالرحمان کے دادا ہیں اسی لیے صاحب مشکوۃ نے اس حدیث کو مرسل فرمایا کہ عتبہ تابعی ہیں اگر یہاں سالم کے دادا عویم مراد ہوتے تو حدیث مرسل کیوں ہوتی،عویم توصحابی ہیں ( مرقات وغیرہ)
۴؎ یعنی بہتر یہ ہے کہ کنواریوں سے نکاح کرو،یہ علیکم الزام کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں کہ "وَاَنۡکِحُوا الْاَیٰمٰی مِنۡکُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ"۔
۵؎ یعنی کنواری لڑکی باتیں میٹھی کرتی ہے کہ اس نے پہلے کوئی شوہر دیکھا نہیں ہوتا تاکہ دونوں خاوندوں کا موازنہ کرتی رہے اور ذرا سی بات میں پہلے خاوند کو یاد کرکے اس خاوند سے منہ موڑے،نیز کنواری لڑکی پوری جوان ہے رحم میں حرات طبیعت میں شہوت قوی ہے لہذا اس سے اولاد بھی زیادہ ہونے کی امید ہیں، نیز خاوند کی تھوڑی کمائی پر گزرا کرنے میں تامل نہ کرے گی کہ اس نے ا س سے پہلے مال دار خاوند کو دیکھا ہی نہیں ہے،تاکہ اس کی عادت زیادہ خرچ کرنے کی پڑچکی ہو۔
۶؎ اس حدیث کو امام سیوطی نے جامع صغیر میں بحوالہ ابن ماجہ و بیہقی عویم ان ساعدہ سے روایت کیا اس صورت میں یہ حدیث متصل ہے۔