۱؎ اس حدیث کی روایت دو طرح کی ہے لم تری مخاطب معروف کے صیغہ سے اور لم یُریٰ غائب مجہول کے صیغہ سے یعنی اے سننے والے تو نے نکاح کیطرح کوئی اور چیز محبت پیدا کرنے والی نہ دیکھی یا نہ دیکھی گئی۔مقصد یہ ہے کہ جن دو شخصوں یا خاندانوں میں محبت پیدا کرنی ہو تو ان کے آپس میں ایک دوسرے کے ہاں لڑکیاں بیاہ دو ان شاءاﷲ محبت پیدا ہوجائے گی،مثل مشہور ہے کہ روٹی بیٹی محبت کی جڑ ہے یا یہ مطلب ہے کہ محبت کے بعد نکاح بہت الفت کا ذریعہ ہے اسی لیے نکاح سے پہلے آپس میں ہدایا تحفے دیئے جاتے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اگر کسی مرد کو کسی عورت سے محبت ہوجائے تو اس سے زنا نہ کرے کہ پھر بغض پیدا ہوجائے گا بلکہ نکاح کرے تب محبت دائمی رہے گی ( لمعات و اشعہ) خیال رہے کہ نکاح محبت کی زنجیر جب ہے جب کہ رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے اگر محض مال و جمال کے لیے کیا جائے تو کبھی بغض وعدوات کا ذریعہ بھی ہوجاتا ہے،جیسا آج بہت جگہ دیکھا جارہا ہے حدیث صحیح ہے ہمارا طریق کا ر غلط ہے۔