۱؎ اس میں خطاب لڑکی کے اولیاء کو ہے چونکہ عادۃً عورت خصوصًا باکرہ لڑکی کے اولیاء سے ہی نکاح کی گفت و شنید کی جاتی ہے اس لیے ان سے خطاب فرمایا۔اس سے معلوم ہورہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ لڑکے والے پیغام دیں لڑکی والوں کو اگرچہ اس کے عکس بھی جائز ہے۔
۲؎ یعنی جب تمہاری لڑکی کے لیے دیندار عادات و طوار کا درست لڑکا مل جائے تو محض مال کی ہوس میں اور لکھ پتی کے انتظار میں جوان لڑکی کے نکاح میں دیر نہ کرو،لڑکے کے خلق سے مراد تندرستی،عادت کی خوبی،نفقہ پر قدرت سب ہی داخل ہیں۔
۳؎ اس لیے کہ اگر مالدار کے انتظار میں لڑکیوں کے نکاح نہ کیے گئے تو ادھر تو لڑکیاں بہت کنواری بیٹھی رہیں گی اور ادھر لڑکے بہت سے بے شادی رہیں گے جس سے زنا پھیلے گا اور زنا کی وجہ سے لڑکی والوں کو عارو ننگ ہوگی،نتیجہ یہ ہوگا کہ خاندان آپس میں لڑیں گے، قتل و غارت ہوں گے، جس کا آج کل ظہور ہونے لگا ہے ۔خیال رہے کہ اس حدیث کی بنا پر امام مالک فرماتے ہیں کہ کفایت میں صرف دین کا لحاظ ہے اور کسی چیز کا اعتبار نہیں،دیگر امام فرماتے ہیں کہ کفایت میں چار چیزیں ملحوظ ہیں: دین،حریت نسب،پیشہ،لہذا مسلم کا نکاح کافر سے نہیں ہوسکتا،یوں ہی صالحہ لڑکی کا نکاح فاسق و بدکار مرد سے نہ کرنا چاہیے۔حرہ کا نکاح غلام سے،اعلیٰ خاندان والی کا نکاح خسیس ذلیل خاندان والے سے،اعلیٰ پیشہ والے کا نکاح ذلیل پیشہ والے سے نہ ہونا چاہیے۔اگر لڑکی خلاف کفو سے نکاح کرلے جس سے اس کے اولیاء کو ذلت ہو تو نکاح درست نہ ہوگا۔( مرقات و لمعات و اشعہ)