روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب سویرا پاتے تو کہتے الٰہی ہم نے تیری مہربانی سے صبح پائی اور تیری مہربانی سے ہی شام کریں گے اور تیری مہربانی سے جئیں گے اور تیرے فضل سے مریں گے ۱؎ اور تیری ہی طرف رجوع ہے اور جب شام پاتے تو کہتے الٰہی تیرے فضل سے ہم نے شام پالی اور تیرے فضل سے ہی صبح کریں گے اور تیری مہربانی سے جئیں مریں گے تیری ہی طرف اٹھنا ہے ۲؎ (ترمذی،ابوداؤد،ابن ماجہ)
شرح
۱؎ خیال رہے کہ انسان کے مرنے پرتعجب نہیں بلکہ اس کی زندگی حیرت ناک ہے کیونکہ اندرونی اور بیرونی دشمن اتنے ہے کہ خدا کی پناہ!اتنے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود اس کا زندہ رہنا اللہ کی قدرت ہی ہے۔اس دعائے شریف کا یہ یہی مطلب ہے کہ خدایا تیرے ہی کرم اور مہربانی سے ہم شام سے سویرا پالیتے ہیں اور سویرے سے شام،ہماری زندگی اور موت تیرے ہی قبضہ میں ہے،یہ معنے تو بالکل ظاہر ہیں،یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ خدایا ہماری زندگی و موت نفس دنیا یا شیطان کے لیے نہیں بلکہ الحمدﷲ تیر ی عبادت کے لیے ہے۔ ۲؎ نشور نشر سے بنا بمعنی پھیلنا،اسی سے ہے منتشر،چونکہ قیامت کی زندگی پھیلے ہوئے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے ہوگی اس لیے اس زندگی کو نشور کہا جاتا ہے اسی لیے مرقات وغیرہ نے اس کا ترجمہ کیا بعث بعد الموت۔یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں کافر،مؤمن،منافق سب جمع ہیں مگر قیامت میں سب چھٹ جائیں گے کہ حکم ہوگا "وَامْتٰزُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوۡنَ"اس لیے اس اٹھنے کا نام نشور ہے اسی وجہ سے مرقات نے اس کے معنے کیے والتفرق بعد الجمع۔