۱؎ حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر کیونکہ اس دن حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کا قیام انہی کے دولت خانہ میں تھا کیونکہ حضرت خاتون جنت کو تو جناب علی نے خبر دی تھی کہ آج حضور کے ہاں بہت لونڈی غلام آئے ہیں اور حضور انہیں مسلمانوں میں تقسیم فرمارہے ہیں تم بھی جاؤ ایک لونڈی حاصل کر لو جیسا کہ پچھلی حدیث میں گزرا۔خیال رہے کہ خادم مذکر مؤنث دونوں کو کہا جاتا ہے،یہاں مؤنث مراد ہے کیونکہ حضرت خاتون جنت نے لونڈی مانگی تھی جو چکی چولہے کا کام کرسکے۔(ازمرقات)
۲؎ پچھلی حدیث میں صرف صبح شام کا ذکر تھا یہاں ہرنماز کا ذکر ہے۔ممکن ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تو صرف صبح شام کا حکم دیا ہو بعد میں ہر نماز کے بعد یا اس کے برعکس بہرحال احادیث میں تعارض نہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقر غنا سے افضل ہے اور صبر شکر سے بہتر،یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو محنتی،عابد،زاہد،متقی بنائیں۔انہیں صرف مالدار کرنے کی کوشش نہ کریں لڑکی کے لیے بہترین جہیز اعمال صالحہ ہیں نہ کہ صرف مال،یہ حدیث تربیت و تعلیم کا خزانہ ہے،یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکی سسرال کی تکالیف کی شکایت ماں باپ سے کرسکتی ہے ازالۂ تکلیف کے لیے،یہ بھی معلوم ہوا کہ سسرال کی تکلیف پر ماں باپ لڑکی کو گھر نہ بٹھالیں بلکہ وہاں ہی رکھیں اور صبر و شکر کی تلقین کریں،اس سے خانگی زندگی کے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔