Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
33 - 671
حدیث نمبر33
روایت ہے حضرت عبدالرحمان ابن ابزی سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب سویرا پاتے تو کہتے ہم نے ا ﷲ کے دین پر اور اخلاص کے کلمے پر ۱؎ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دین پر۲؎ اور اپنے والد حضرت ابراہیم کی ملت پر سویرا پایا حضرت ابراہیم ہر برائی سے دورتھے مشرکوں سے نہ تھے ۳؎ (دارمی)
شرح
۱؎ فطرت کے لغوی معنی ہیں،پیدائش،رب تعالٰی فرماتا ہے:"فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا"اور فرماتا ہے"فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرْضِ"۔پھر اصطلاح میں پیدائشی حالت کا نام فطرت ہوا،شریعت میں سنت انبیاء کو بھی فطرت کہتے ہیں اور ملت کو بھی، چونکہ اسلام ہی انسان کا پیدائشی دین ہے کہ ہر بچہ ایمان پرپیدا ہوتا ہے،پھر مختلف صحبتیں پا کر مختلف دین اختیار کرتا ہے اس لیے اسے فطرت کہا جاتا ہے یہاں آخری معنی ہی مراد ہے۔

۲؎ یہ فطرت اسلام کا بیان ہے۔لغۃً ہر نبی کا دین اسلام ہے،یعقوب علیہ اسلام نے اپنے فرزندوں سے فرمایا تھا "وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ"اسی لیے فرمایا کہ اسلام سے مراد  دین محمدی ہے۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسلام پر ہیں اور حضور کی امت بھی مگر حضور  اس دین پر ہیں ہم کو چلانے کے لیے،ہم اس راہ پر ہیں چلنے کے لیے،ریلوے لائن پر انجن بھی  ہے اور پیچھے والے ڈبے بھی مگر انجن چلانے کے لیے اور ڈبے چلنے کے لیے،رب فرماتا ہے :"اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ عَلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ"بلکہ اپنے متعلق بھی فرماتا  ہے:"اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ"یعنی رب تعالٰی سیدھے راستہ پر ملتا ہے جیسے کہا جاتا ہے لاہور سیدھی سڑک پر۔

۳؎ کفار عرب  شرک کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم دین ابرہیمی پر ہیں اس جملہ میں ان کی تردید ہے کہ حضرت ابراہیم تو مشرک نہ تھے تم مشرک ہو  پھر تم ان کے دین پر کیسے ہوئے ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین ابرہیمی  پر ہونے کے  معنی  یہ ہیں  کہ آپ کا دین ملت ابراہیمی کے مطابق ہے نہ یہ کہ آپ ان کے متبع ہیں۔چنانچہ ختنہ حجامت،قربانی،مہمان نوازی تمام احکامِ ابراہیمی  اسلام میں موجود ہیں۔
Flag Counter