Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
28 - 671
حدیث نمبر 28
روایت ہے حضرت ابن عمر سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو بستر اختیار فرماتے تو فرماتے شکر ہے اس اﷲ کا جو میرے لیے کافی ہوا اور جس نے مجھے کھلایا اور پلایا اور جس نے مجھ پر احسان پھر فضل کیا  ۱؎  اور جس نے مجھے دیا تو بہت زیادہ دیا۲؎ ہر حال میں اﷲ کا شکر ہے ۳؎ اے اﷲ ہر چیز کے رب اور بادشاہ اے ہر چیز کے معبود میں آگ سے تیری پناہ لیتا ہوں ۴؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ اس دعا میں رب تعالٰی کی چھ نعمتوں کا ذکر ہے:کفایت یعنی مخلوق سے بے نیاز کردینا ،اواء یعنی رہنے کے مکان عطا فرمانا،کھانا پانی عطا فرمانا،دیگر نعمتیں دینا اور سب سے اعلٰی دینا۔واقعی رب تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنا دیا کہ جتنا کسی کو نہ دیا،خود فرماتا ہے:"وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا"محبوب آپ پر اﷲ کا بڑا فضل ہے اور فرماتا ہے:"اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ"ہم نے آپ کو بہت کچھ دیا،یہاں اس عطا کا شکر ہے۔

۲؎ افضل میں کیفیت کی زیادتی مراد تھی اور اجزل میں مقدار کی زیادتی مقصود ہے یعنی مجھے رب تعالٰی نے بہت زیادہ اعلٰی دیا لہذا کلمات میں تکرار نہیں۔

۳؎ یعنی فقر و غنا،رنج  و عنا،راحت و مصیبت ہر حال میں اﷲ کا شکر ہے۔خیال رہے کہ رب کی بھیجی ہوئی مصیبت و غم بھی نعمت ہےکہ اس کے ذریعے ہزار  گناہ معاف ہوجاتے ہیں لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ شکر  تو صرف نعمت پر ہوتا ہے پھر ہر حال میں شکر کیسا۔

۴؎  مالك و ملیك کا فرق بار ہا بیان ہوچکا کہ ظاہری عارضی ملک رکھنے والا بھی مالک کہلاتا ہے،مگر حقیقی دائمی ملک والا ملیک۔مالک ملیک سے عام۔اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے وقت رب تعالٰی کو اس کے اچھے ناموں سے یاد کرنا چاہیے،حمد الٰہی دعا  کا  رکن ہے،آگ سے پناہ مانگنے کے یہ معنے بھی ہیں کہ رب تعالٰی ہمیں دوزخ والے اعمال سے بچائے اور یہ معنے بھی ہیں کہ گناہوں کی معافی دے کر دوزخ سے نجات دیدے،دوزخ سے نجات ملنے پر ان شاءاﷲ جنت ملنا لازمی ہے کیونکہ سوا ء جنت و  دوزخ کے انسانوں کے لیے تیسرا کوئی مقام نہیں۔اعراف ایک عارضی جگہ ہوگی جس کے بعد جنت ملے گی لہذا حدیث پر یہ سوال نہیں کہ یہاں جنت کی طلب نہیں کی گئی۔
Flag Counter