مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی کہ آپ حضور جب اپنے بستر پر جاتے تو عرض فرماتے ۱؎ اے اﷲ اے آسمانوں کے رب اے زمین کے رب اے ہر چیز کے رب ۲؎ اے دانہ اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والے ۳؎ اے توریت انجیل اور قرآن کو اتار نے والے ۴؎ میں ہر اس کی شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیری گرفت میں ہے ۵؎ تو ہی اول ہے کہ تجھ سے پہلے کچھ نہیں اور تو ہی آخر ہے کہ تیر ے پیچھے کچھ نہیں ۶؎ تو ہی ظاہر ہے کہ تیرے اوپر کوئی چیز نہیں اور تو ہی چھپا ہے کہ تیرے پیچھے کچھ نہیں۷؎ میرا قرض ادا کردے اور مجھے فقیری سے غنا بخش۸؎ (ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ)اسے مسلم نے کچھ تھوڑے فرق کے ساتھ روایت کیا۔
شرح
۱؎ یعنی بستر پرجاتے وقت لینےّ سے پہلے اور حصن حصین میں ہے کہ سرکار بستر پر لیٹ کر یہ پڑھتے تھے،ہوسکتا ہے کہ کبھی یہ ہو کبھی وہ لہذا دونوں روایتوں میں تعار ض نہیں۔ ۲؎ آسمانی و زمینی اصولی نعمتیں ہیں درمیان کی چیزیں فروعی نعمتیں یعنی تمام اصولی و فروعی نعمتوں کے رب۔مسلم کی رو ایت میں سماوات کے ساتھ سبع بھی ہے اور حصن حصین میں ورب العرش العظیم بھی ہے۔ ۳؎ نویٰ کھجور کی گٹھلی کو کہتے ہیں،چونکہ عرب میں کھجور زیادہ ہوتی ہے،نیز تمام درختوں سے کھجور افضل بھی اور زیادہ نافع بھی ہے،اس لیے دانوں کے بعد اس کا خصوصیت سے ذکر فرمایا یعنی اے تخم اور گٹھلی کو چیر کر اس میں سے درخت نکالنے والے مولیٰ، چونکہ دانوں سے غذا اور گٹھلی سے پھل پیدا ہوے ہیں غذا اور میووں سے جسمانی رزق ہے اس لیے دونوں کا ذکر فرمایا۔ ۴؎ یعنی جسمانی روزیوں کے ساتھ ہم کو ر وحانی روزی دینے والےکیونکہ آسمانی کتابیں روحانی روزی کا ذریعہ ہیں،چونکہ زبور شریف میں صرف دعائیں تھیں،احکام تو ریت ہی میں تھے،نیز توریت شریف زبور پر حاوی تھی اس لیے زبور کا ذکر نہ فرمایا،حصن حصین میں بجائے قرآن کے فرقان ہے۔ ۵؎ مطلب یہ ہے کہ ہر شر والی چیز تیرے قبضہ میں ہے کہ اس کا خالق و مالک ہے مولٰی میں اس کی شر سے تیری پناہ لیتا ہوں،ضعیف ہوں تو قوی،اے قوی مجھ ضعیف کو اپنی پناہ میں لے لے۔ ۶؎ یعنی تو ہی ازلی ہے کہ عدم سابق سے پاک ہے اور تو ہی ابدی ہے کہ عدم لاحق سے پاک۔خیال رہے کہ رب کے سوا کوئی چیز ازلی و قدیم نہیں ہر چیز حادث و نوپید ہے مگر ر ب کے ارادے سے بعض چیزیں ابدی ہیں جیسے دوزخ اور وہاں کے عذاب،اسی طرح جنت اور وہاں کے ثواب ارواح اور جنتی و جہنمی لوگ وہاں پہنچ کر کہ یہ سب کچھ ابدی ہیں جنہیں فنا نہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے: "اُکُلُہَا دَآئِمٌ"اور فرماتا ہے:"خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا"اگر ان میں سے کیر چیز کو فنا ہوتی تو خلدین کیسے اور ابدًا کیسے۔خلاصہ یہ ہے کہ قدیم و ازلی رب تعالٰی کے سواء کوئی نہیں مگر ابدی بہت چیزیں ہیں لیکن رب تعالٰی ذاتی حقیقی ابدی اور وہ چیزیں مجازی و عرضی ابدی۔اور ہوسکتا ہے بعدك بمعنی غیرك ہو ا اورمطلب یہ ہو کہ تیرے سوا کسی کو ذاتی طور پربقا نہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:"کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ"اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں"الا کل شیئ ما خلا اﷲ باطلٌ"بے دینوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی کہ جنت و دوزخ کو فنا ہے مگر یہ بات باطل ہے اور مطلب حدیث کا وہ ہے جو ابھی عرض کیا گیا۔ ۷؎ یعنی اے میرے مولٰی تو صفات و افعال کے لحاظ سے ایسا ظاہر ہے کہ اس کے ظہور پرکسی کا ظہور نہیں اور ذات کے لحاظ سے ایسا چھپا ہوا ہے کہ تجھ سے زیادہ کوئی چھپی چیز نہیں۔شعر بے حجابی یہ کہ ہر ذرہ میں جلوہ آشکار اس پہ یہ پردہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے یار تیرے حسن کو تشبیہ دوں کس چیز سے ایک تو ہی دیدہ ہے تیرے سوا نادیدہ ہے یہاں مرقات نے فرمایا کہ دُون بمعنی غیر بھی آتا ہے اور بمعنی قریب بھی،یہاں دونوں معنے بن سکتے ہیں یعنی تیرے سوا کوئی حقیقی چھپا ہوا نہیں یا کوئی چیز چھپنے میں تجھ سے قریب بھی نہیں۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ رب تعالٰی بصارت سے چھپا ہے اور بصیرت سے ظاہر یعنی نظر سے چھپنا فکر میں ظاہر۔ ۸؎ قرض سے مراد مخلوق کا قرض ہے کیونکہ اس قرض سے بہت گناہ پیدا ہوتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ قرض رات کا غم اور دن کی ذلت ہے،فقیری سے مراد مخلوق کی محتاجی ہے یا اس سے دلی فقر مراد ہے جس کے متعلق فرمایا گیا کہ فقر کفر تک پہنچادیتا ہے لہذا یہ حدیث نہ اس آیت کے خلاف ہے"وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنۡتُمُ الْفُقَرَآءُ" اور نہ اس حدیث کے مخالف الفقر فخری۔