Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
25 - 671
حدیث نمبر 25
روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن غنام سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو صبح کے وقت یہ پڑھے الٰہی تیری جو نعمت مجھے یا تیری کسی مخلوق کو ملی وہ صرف تیرے اکیلے کی طرف سے ہے  ۱؎ تیرا کوئی شریک نہیں لہذا تیری ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر۲؎  تو  اس نے آج کے دن کا شکریہ ادا کردیا۳؎  اور جو اسی طرح شام کے وقت کہہ لے تو اس نے اس رات کا شکریہ ادا کر دیا ۴؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ یعنی جسے جو دینی یا دنیاوی نعمت ملی بلاواسطہ یا بالواسطہ وہ تیری ہی طرف سے ہے۔اس دعا میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے "وَمَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ"۔خیال رہے کہ نعمت و مصیبت سب اﷲ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے مگر ادب یہ ہے کہ نعمتوں کو ر ب کی طرف نسبت دو اور مصیبت کو اپنی طرف،رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَ مَاۤ اَصٰبَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیۡدِیۡکُمْ"۔

۲؎ یعنی حقیقی حمد اور حقیقی شکر تیرے ہی ہیں کہ حقیقی منعم تو ہی ہے،تیرے سواء جس کا بھی شکر و حمد ہوں گے وہ مجازی ہوں گے لہذا یہ دعا قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں"اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوٰلِدَیۡکَ"میرا  اور اپنے ماں باپ کا شکر یہ ادا کرو  کہ وہاں ماں باپ کا شکریہ مجازی مراد ہے۔

۳؎ یعنی صبح شام اس دعا کے پڑھنے والوں کو توفیق ملے گی کہ رب تعالٰی کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں اور اگر شکریہ میں کھر کوتاہی ہوگئی تو رب تعالٰی اس کی برکت سے وہ کمی پوری فرمادے گا،یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز،زکوۃ،روزہ کچھ نہ کرو صرف یہ دعا پڑھ لیا کرو کیونکہ ساری عبادتیں رب کا شکریہ ہیں اور شکریہ تو اس دعا سے پورا ہوگیا اب اور شکر کی کیا ضرورت ہے۔غرضکہ حدیث صاف ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ شکریہ دلی بھی ہوتا ہے،زبانی بھی،یہاں شکر سے مراد قولی شکر ہے یعنی ان کلمات میں ایسا ثواب ملے گا جیسے کوئی دن بھر زبانی شکریہ ادا کرتا رہے،رہا عملی شکریہ وہ اس کے علاوہ ہے۔

۴؎  اسے نسائی نے انہی عبدا ﷲ ابن غنام سے روایت کیا اور ابن حبان و ابن سنی نے حضرت ابن عباس سے رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
Flag Counter