مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو ابن عاص سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو خصلتیں ایسی ہیں کہ کوئی مسلمان آدمی انہیں اختیار نہیں کرتا مگر جنت میں ضرور جائے گا ۱؎ وہ ہیں تو آسان مگر ان پر عامل تھوڑے ہیں۲؎ ہر نماز کے بعد دس بار اﷲ کی تسبیح کہے،دس بار اس کی حمد کرے،دس بار تکبیر کہے ۳؎ راوی فرماتے ہیں پھر میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ نے عقد انامل فرما کر فرمایا کہ یہ زبان میں تو ڈیڑھ سو ہیں ۴؎ مگر میزان یعنی ترازو میں ڈیڑھ ہزار ہوں گے ۵؎ اور جب اپنا بستر لے تو سو بار تسبیح تکبیر اور حمد کرے ۶؎ تو یہ زبان میں ایک سو ہیں اور میزان میں ایک ہزار۷؎ بتاؤ تو تم میں سے کون ہے جو ایک دن و رات میں ڈھائی ہزار گناہ کرے۸؎ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ان کلمات کی کیوں نہ پابندی کریں گے ۹؎ فرمایا جب کوئی نماز میں ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس پہنچ کر کہتا ہے فلاں بات یاد کرو فلاں بات یاد کرو حتی کہ نمازی کو باز رکھ دیتا ہے تو شاید وہ یہ عمل نہ کرسکے ۱۰؎ اور شیطان اس کے خوابگاہ پر پہنچ کر اسے سلاتا رہتا ہے حتی کہ وہ سوجاتا ہے ۱۱؎ (ترمذی،ابوداؤد،نسائی)ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ فرمایا دو خصلتیں یا دو عادتیں ایسی ہیں جن کی کوئی بندہ مسلمان حفاظت نہیں کرتا۱۲؎ الخ اسی طرح ابوداؤد کی روایت میں اس کلام کے بعد کہ میزان میں ڈیڑھ ہزار میں یہ ہے کہ فرمایا ۳۴ بار تکبیر کہے جب اپنا بستر لے اور ۳۳ بار الحمدﷲ پڑھے اور ۳۳ بار سبحان اﷲ کہے ۱۳؎ اور مصابیح کے اکثر نسخوں میں عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے۔
شرح
۱؎ ایسے مقامات میں رجل بمعنی آدمی ہوتا ہے نہ کہ بمعنی مرد لہذا یہ مطلب نہیں کہ مرد مسلمان تو یہ عمل کرے عورت مسلمہ نہ کرے بلکہ جو بھی کرے مرد یا عورت سب کو مفید ہے۔مسلم کی قید اس لیے لگائی گئی کہ کافر کا کوئی عمل وظیفہ نہ قبول ہے نہ باعث ثواب۔خیال رہے کہ بعض اعمال کی دنیاوی تاثیر کفار سے صادر ہوجاتی ہے جیسے گالی کا برا اثر اور اچھے الفاظ کا دل پر اچھا اثر،بہرحال ہوتا ہے خواہ کافر کی طر ف سے ہو یا مؤمن کی طرف سے۔ لایحصیھما احصاءٌ سے بنا جس کے لغوی معنی تو ہیں شمار کرنا مگر اصطلاح میں حفاظت کرنے،طاقت رکھنے کے معنی میں آتا ہے خصوصًا جب کہ وہ چیز گنتی والی ہو یہاں اصطلاحی معنی مراد ہے۔ ۲؎ اس میں غیبی خبر ہے کہ یہ عمل کچھ بھاری نہیں مگر بہت آسان ہے لیکن اس کی توفیق کم لوگوں کو ملے گی جیسے رب تعالٰی نماز کے متعلق فرماتا ہے:"وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیۡنَ"یہ نماز خاشعین کے سوا دوسروں پر گراں ہے،اس کا ظہور آج بھی ہورہا ہے کہ روزہ حج جو مشکل چیزیں ہیں لوگ خوشی و شوق سے کرتے ہیں حتی کہ بچے روزے کے لیے ضد کرتے ہیں مگر نماز کا پابند کوئی کوئی ہے،اسی طرح اس عمل کے پڑھنے والے اب بھی کم دیکھے جاتے ہیں،یہ ہے اس مخبر صادق کی سچی خبر صلی اللہ علیہ و سلم۔ ۳؎ اس طرح کہ پہلے دس بار سبحان اﷲ کہے،پھر دس بار الحمدﷲ،پھر دس بار اﷲ اکبر،یہ نہ کرے کہ سبحان اﷲ والحمدﷲ اﷲ اکبر ملا کر دس بار کہے کہ یہ مقصد حدیث کے خلاف ہے۔ ۴؎ اس طرح کہ ہر نماز کے بعد تیس ہوئے اور پانچ نمازیں ہیں تو تیس پنجہ ڈیڑھ سو ہوئے۔ ۵؎ یعنی یہ کلمات روزانہ پڑھنے میں ڈیڑھ سو مگر ثواب میں ڈیڑھ ہزار کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے " مَنۡ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا"یہ تو ہے قانون اور فضل رب کا کوئی حساب نہیں۔ ۶؎ یعنی سوتے وقت بستر پر لیٹنے سے پہلے سبحان اﷲ۳۳ بار الحمدﷲ۳۳ بار اور اﷲ اکبر۳۴ بار پڑھ لیا کرے۔واؤ ترتیب کے لیے نہیں لہذا اﷲ اکبر الحمدﷲ کے بعد پڑھے اور اس کا ذکر حمد سے پہلے ہے یہ ہی بزرگوں کا عمل ہے اور دوسری احادیث بھی اس کی تائید فرماتی ہے۔ ۷؎ یہاں بھی وہ ہی حساب ہے کہ قانونًا ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے تو سو کلمات کا ثواب ہزار گنا ہوا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں وزن نیکی کے ثواب کا ہوگا نہ کہ محض الفاظ کا اسی لیے کفار کی نیکیاں بالکل وزنی نہ ہوں گی اور گناہ بہت بھاری،ان شاء اﷲ! مؤمن کی نیکیاں بقدر اخلاص وزنی ہوں گی اور گناہ کا یا تو وزن ہوگا ہی نہیں اگر ہوگا تو بہت ہلکا،رب تعالٰی کفار کی نیکیوں کے متعلق فرماتا ہے:"فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا"لہذا فی المیزان فرمانا بہت موزوں ہے۔ ۸؎ یعنی یہ کلمات سارے مل کر پڑھنے میں تو ہوئے ڈھائی سو اور ثواب میں ہوئے ڈھائی ہزار اور ہر ایک کلمہ ایک ایک گناہ مٹاتا ہے، رب تعالٰی فرماتا ہے:"اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ"۔چنانچہ ان کا مجموعہ ڈھائی ہزار گناہ مٹانے کے لیے کافی ہے اور بمشکل ہی کوئی مسلمان ایسا ہوگا جو ڈھائی ہزار گنا ہ روزانہ کرے،تو ان شاءاﷲ اب یہ کلمات خالص نفع ہی میں بچے،کچھ نے تو گناہ مٹائے اور جو گناہوں سے بچے انہوں نے درجے بڑھائے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکیاں ثواب کا باعث بھی ہیں اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بھی،داتا کی دین کے بہانے ہیں۔ ۹؎ یہ سوال تعجب کے لیے ہے کہ یا حبیب اﷲ اتنا آسان عمل اور اتنے فائدے والا عمل کون چھوڑے گا اور کیوں چھوڑے گا،کیسے چھوڑے گا۔ ۱۰؎ سبحان اﷲ! کیسا پیارا جواب ہے یعنی جب شیطان فرائض عبادات میں یوں خلل ڈال دیتا ہے تو یہ عمل تو ایک نفلی کام ہے اس سے کیوں نہ روکے گا،نماز کے بعد تمہیں ایسے کام یاد دلائے گا کہ تم مسجد سے جلد جانے کی کوشش کرو گے اور کہے گا کہ یہ عمل صرف نفلی ہی تو ہے اسے چھوڑ دو،فلاں کام چل کرکرو۔ ۱۱؎ یعنی نماز والے عمل سے تو اسی طرح روکے گا جو بیان ہوئی اور سوتے وقت کے عمل سے یوں روکے گا کہ اسے بستر پر پہنچتے ہی سلادے گا کہے گا کہ یہ عمل صرف نفلی ہے اسے چھوڑ دے اور جلد سوجاؤ تاکہ فجر کے لیے وقت پر آنکھ کھلے۔خیال رہے کہ شیطان دینداروں کے پاس پہنچ کر دین دکھا کر بہکاتا ہے۔ ۱۲؎ یعنی ابوداؤد کی روایت میں شک سے ہے خلتان فرمایا یا خصلتان اگرچہ ان دونوں لفظوں کے معنے ایک ہی ہیں مگر محتاط راوی الفاظ رسول ا ﷲ کی پابندی کرتے تھے اور حدیث کو قرآن شریف کی طرح یاد کرتے تھے اگر کہیں ذرا سا تردد ہوجاتا تو بیان کردیتے تھے۔ ۱۳؎ یہاں بھی وہ بات یاد رہے جو ابھی پہلے عرض کی گئی کہ واؤ ترتیب نہیں چاہتا لہذا بیان میں تکبیر پہلے ہے اور تسبیح بعد میں مگر پڑھنے میں سبحان اﷲ پہلے ہوگی اور اﷲ اکبر بعد میں۔