مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت علی سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے لیٹتے وقت کہتے تھے الٰہی میں تیری ذات کریم کی اور تیرے کامل کلمات کی پناہ لیتا ہوں ۱؎ اس کے شرارت سے تو جس کی پیشانی پکڑے ہے۲؎ الٰہی تو ہی قرض اور گناہ کو دور کرتا ہے ۳؎ الٰہی تیرا لشکر کبھی شکست نہیں پا تا تیرا وعدہ تیرے خلاف نہیں ہوتا۴؎ اور تیرے مقابل بختاور کو بخت نفع نہیں دیتا۵؎ توپاک ہے اور تیری ہی حمد ہے ۔(ابوداؤد)
شرح
۱؎ وجہ سے مراد ذات باری تعالٰی ہے"کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ اور کلمات الہیہ سے مراد اس کے اسماء و صفات ہیں یا آیات قرآنیہ،یا کُن فرمانا یعنی میں تیری ذات و صفات آیات کی پناہ لیتا ہوں،چونکہ یہ تمام چیزیں کامل ہیں نقصانات سے پاک اس لیے انہیں تامات فرمایا گیا۔معلوم ہوا کہ اﷲ کے مقبول بندوں خصوصًا حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی پناہ لینا بھی جائز ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی کلمات اﷲ ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اﷲ ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کلمات اﷲ ہیں جیسا کہ"قُلۡ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ"کی تفسیر صوفیانہ میں ہے۔ ۲؎ یعنی ساری موذی چیزیں تیرے قبضہ میں ہیں جسے تو بچانا چاہے اسے یہ موذی تکلیف نہیں دے سکتیں،پیشانی پکڑنے سے مراد قبضہ میں ہونا ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:"مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا"۔ ۳؎ ممکن ہے کہ قرض سے مراد اﷲ تعالٰی کے فرض ہوں جیسے وہ فرض واجب عبادات جو ادا نہ کی گئیں اور ماثم سے مراد وہ گناہ ہوں جو نہ کرنے تھے اور کر لیے گئے یا مغرم سے مراد وہ ناجائز قرض ہیں جن سے رب ناراض ہے جسے حرام کام میں خرچ کرنے کے لیے قر ض لینا لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قرض سے ا تنی پناہ مانگی ہے تو آپ پر قرض کیوں ہوتا تھا حتی کہ وفات کے و قت بھی آپ کی زرہ قرض میں گروی تھی۔بعض قرض ثواب ہیں اور بعض قرض گناہ،قرض گناہ سے پناہ مانگی۔(از مرقات مع زیار ت)یا قرض سے وہ قرض مراد ہے جو ادا نہ ہوسکے،حضور کے تمام قرض ادا ہوگئے حتی کہ حضور کے بعد صدیق اکبر نے ادا کیے۔ ۴؎ اﷲ کے لشکر سے مرا دیا تو فرشتوں کا لشکر ہے یا جانوروں وغیرہ کا وہ لشکر جو عذاب دینے آئے جیسے فیل والوں پر ابابیل یا احزاب کے کفار پر ہوا لشکر یا طوفان نوحی میں پانی کا لشکر یا لشکر سے مراد مؤمن غازیوں کا لشکر ہے جو محض رضائے الٰہی کے لیے جہاد کرے کہ انجام کا رفتح اسی کی ہوتی ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:"والعاقبۃ للمتقین" کبھی ان کی شکست ہوتی ہے تو عارضی وہ بھی اپنی کسی غلطی کی وجہ سے،کربلا میں امام حسین کی فتح ہوئی کہ اسلام بچ گیا،حسینی لشکر اﷲ کا لشکر تھا،نیز ر ب کے وعدہ میں خلاف ناممکن ہے،اس کا وعدہ ہوچکا"اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ"۔ ۵؎ جد کے معنی مال بھی ہیں اور بخت و نصیب بھی،دوسرے معنی یہا ں زیادہ موزوں ہیں۔نصیب میں مال،سلطنت،فوج،مکان و قلعہ وغیرہ سب ہی داخل ہیں یعنی جب تو کسی کو پکڑے تو اسے نہ سلطنت بچا سکتی ہے نہ فوج و خزانہ اور قلعہ،تیری پکڑ سے تیری رحمت ہی بچا سکتی ہے،یہاں مرقات نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں چند لوگ حاضر تھے کوئی جدی الامل،کسی نے کہا جدی الرزع،کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ،تب حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سنا کر یہ دعا کی۔