مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت ثوبان سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ ایسا کوئی بندہ مسلمان نہیں جو شام اور صبح تین بار یہ کہہ لیا کرے میں اﷲ کی ربوبیت اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے سے راضی ہوا ۱؎ مگر اﷲ کے ذمہ کرم ہوگا کہ قیامت میں اسے راضی فرمالے ۲؎ (احمد،ترمذی)
شرح
۱؎ اﷲ سے راضی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قضاء سے راضی رہے،رضاء بالقضاء خاص بندوں ہی کو نصیب ہوتی ہے اور اسلام سے راضی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے تمام احکام پر خوش ہو سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں،حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے راضی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حضور کو اپنے جان مال اولاد کا صحیح معنی میں مالک جانے اور حضور کو تمام چیزوں سے پیارا جانے،اﷲ تعالٰی اس قال کو حال کردے اور حقیقت یہ ہے کہ جب حضور کی ہر چیز پیاری،حضور کا قرآن،حضور کا اسلام،بلکہ حضور کا رب بھی پیارا،عشق مصطفویٰ تمام محبتوں کا ذریعہ ہے۔شعر محمد از تومے خواہم خدا را خدایا از تو عشق مصطفٰے را اکثر دعائیں تین بار پڑھی جاتی ہیں تاکہ جماعت ہوجائے اور جماعت پر اﷲ کی رحمت ہے اسی لیے یہ کلمات بھی تین تین بارکہے۔ ۲؎ یعنی قیامت میں رب اسے اتنا دے گا کہ بندہ خوش ہوجائے گا۔خیال رہے کہ یہ صفت کہ ر ب بندے کو راضی کرے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے،رب تعالٰی نے فرمایا:"وَلَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی"پھر حضور کے صدقہ سے حضرت صدیق اکبر کو یہ وصف ملا کہ رب تعالٰی نے ان کے متعلق فرمایا "وَلَسَوْفَ یَرْضٰی"پھر ان سرکار کے صدقے سے یہ کلمات پڑھنے والے کو بھی عطا ہوا،حضرت صدیق اکبر عملی طور پر اﷲ،اسلام اور حضور سے راضی تھے انہوں نے یہ کرکے دکھا دیا ر ضی اللہ عنہ۔