مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو صبح کے وقت یہ کہہ لے الٰہی ہم نے سویرا پالیا ۱؎ ہم تجھے اور تیرا عرش اٹھانے والوں اور دیگر فرشتوں اور تیری ساری مخلوق کو گواہ بناتے ہیں۲؎ کہ تو اﷲ ہے،تجھ اکیلے کے سوا کوئی معبود نہیں،تیرا کوئی ساجھی نہیں اور یہ کہ محمد تیرے بندہ اور تیرے رسول ہیں مگر اﷲ اس کے اس دن کے سارے گناہ معاف کردے گا اور اگر یہ کلمات شام کے وقت کہہ لے گا تو اﷲ اس رات کے اس کے سارے گناہ معاف کردے گا۔۳؎ (ترمذی،ابوداؤد)ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔
شرح
۱؎ یہ عرض معروض شکر کے لیے ہے نہ کہ رب تعالٰی کو خبر دینے کے لیے،تیرا شکر ہے کہ ہم نے بخیریت سویرا پالیا رات میں ہلاک نہ ہوگئے،مرکر دوبارہ زندگی پالی۔ ۲؎ یعنی اﷲ تعالٰی تو بھی گواہ رہ اور تیری مخلوق میں سے اعلٰی ادنی ہر چیز گواہ رہے کہ نہ ہم کسی وقت تجھ سے غافل ہیں نہ تیری نعمتوں کے منکر۔اس جملے سے دو مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ تجدید ایمان کرتے رہنا بہت ہی اعلٰی چیز ہے۔دوسرے یہ کہ اپنے ایمان پر خالق و مخلوق کو گواہ بنالینا بہت بہتر ہے یہ گواہیاں قیامت میں بڑے کام آئیں گی۔بعض روایات میں ہے کہ ہر جنگل و دریا میں بلند آوا زسے کلمہ طیبہ پڑھا کرو کہ ذرے و قطرے تمہارے ایمان کے گواہ بن جائیں،مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک کی ہر چیز اس کے ایمان کی گواہ ہے،بعض زائرین مدینہ منورہ میں ر وضہ اطہر پر حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ایمان کا گواہ بناتے ہیں عرض کرتے ہیں یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم میں گواہ ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں حضور بھی گواہ رہیں کہ میں آپ کا گنہگار امتی ہوں پڑھتا ہوں لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ اس کی اصل یہ ہی حدیث ہے اور اس کے بڑے فائدے ہیں۔ ۳؎ یا اس طرح کہ اسے دن بھر کے گناہوں سے بچنے کی توفیق دے گا یہ بھی معافی کی ایک صورت ہےیا اس طرح کہ جو گناہ اس سے آج سرزد ہوں گے انہیں معاف فرمادے گا۔سبحان اﷲ! ساری مخلوق کو اپنے ایمان کا گواہ بنالینا اتنا مفید ہے تو جن لوگوں نے جناب مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گواہ بنالیا ان کی قسمت کا کیا کہنا۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب شہدائے احد کو دفن فرمارہے تھے تو فرماتے تھے کہ میں ان لوگوں کے ایمان کا گواہ ہوں،درّہ والے قسمت والے شہیدو جو حضور کے ہاتھوں دفن ہوگئے تمہاری تو مٹی ٹھکانے لگ گئی،محنت وصول ہوگی۔ میں سمجھوں گا مٹی ٹھکانے لگی مدینہ میں برباد گر ہوگئی