مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم صبح و شام کے وقت یہ کلمات پڑھنا کبھی نہ چھوڑتے تھے ۱؎ الٰہی میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں دنیاو آخرت کی ۲؎ الٰہی میں تجھ سے اپنے دین و دنیا اور گھر بار و مال میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں ۳؎ الٰہی میرے عیبوں کو چھپالے اور مجھے خوفوں سے امن دے ۴؎ الٰہی مجھے آگے پیچھے اور دائیں بائیں اور اوپر سے محفوظ رکھ ۵؎ میں تیری عظمت کی پناہ مانگتا ہوں اس لیے کہ نیچے سے ہلاک کیا جاؤں یعنی زمین میں دھنسا کر ۶؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ اس طرح فرمانا کہ لم یکن یدع مبالغہ کے لیے ہے یعنی میں سفروحضر میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہا میں نے تو یہ دیکھا کہ حضور یہ پڑھنا کسی حالت میں نہ چھوڑتے تھے،یہ مطلب نہیں کہ آپ پر یہ دعا پڑھنی فرض تھی۔معلوم ہوا کہ مستحب کام ہمیشہ کرنا حرام نہیں لہذا بزرگوں کے بتائے وظیفے اورعملیات،عرس بزرگان،گیارھویں و میلاد شریف کی مجلسیں ہمیشہ کرنا بہتر ہے حرام نہیں،حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اچھا عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔ ۲؎ عافیت کے معنی ہیں آفات سے سلامتی و حفاظت،آفات میں دنیاوی آفتیں بھی داخل ہیں جیسے ناگہانی مصیبتیں،بری بیماریاں وغیرہ،اخروی آفتیں بھی شامل جیسے گناہ میں مشغولیت،نیکیوں سے دوری،بے صبری،ناشکری وغیرہ اسی لیے آگے دین و دنیا کا ذکر ہے۔بعض نے فرمایا کہ دنیا کی عافیت گناہوں سے حفاظت ہے اور آخرت کی عافیت عذاب سے باںلینا ہے بہرحال یہ دعا بہت جامع ہے۔ ۳؎ سبحان اﷲ! کیسی پیاری دعا ہے۔انسان پر تین قسم کی ہی مصیبتیں آتی ہیں:جانی،مالی اور عیالی پھر یہ تینوں مصیبتیں دو طرح کی ہوتی ہیں دنیاوی اور دینی گویا کل چھ قسم کی آفتںو ہوئیں ان چھ قسم کی مصیبتوں سے ایک چھوٹے سے جملے میں امن مانگ لی۔خیال رہے کہ گناہ سے بچا لینا عافیت اور گناہ سرزد ہوچکنے کے بعد معاف کردینا عفو ۔اس پیارے محبوب نے ہم کو سب کچھ سکھادیا اﷲ تعالٰی ہمیں سیکھنے کی توفیق دے۔ ۴؎ چونکہ ہمارے عیوب بے شمار ہیں اور خطرناک چیزیں بے حد اس لیے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے عورات اور روعات جمع فرمائے۔روع بمعنی گھبراہٹ یہاں گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز یں مراد ہیں عورۃ،روعاتی میں نہایت نفیس مقابلہ ہے۔خیال رہے کہ یہ دعا ہم گنہگاروں کی تعلیم کے لیے ہے ورنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تو وہ شان ہے کہ جس پر ان کی نظر کر یمانہ ہوجائے وہ عیبوں سے پاک ہوجائے۔ جس طرف بھی اٹھ گئیں عالم منور ہو گئے میں تیری آنکھوں کے صدقے ان میں کتنا نور ہے ۵؎ اس مبارک جملہ میں اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے"لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیۡمٰنِہِمْ وَعَنۡ شَمَآئِلِہِمْ"۔مقصد یہ ہے کہ شیطان کے آنے کے چار راستے ہیں میرے مولٰی مجھے ان چاروں راستوں سے محفوظ فرمادے کہ کسی طرف سے شیطان مجھ تک نہ پہنچ سکے یا مقصد یہ ہے کہ آفات و بلائیں ان طرف سے آسکتی ہیں مولٰی ان اطراف کو محفوظ فرما دے۔ ۶؎ اُغْتَال غیل سے بنا بمعنی دھوکہ یا اچانک،اغتیال کے معنی میں اچانک قتل یا اچانک ہلاکت، چونکہ دھنسا کر ہلاک کردینا تمام آفتوں سے سخت تر آفت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خصوصیت سے اس کا ذکر علیحدہ فرمایا۔بعض شارحین نے فرمایا کہ ہر چہار طرف سے آفت کا انسان کچھ تدارک ان سے بچنے کی تدبیر کرسکتا ہے مگر زمین میں دھنسنا وہ آفت ہے جس کی کوئی تدبیر بن نہیں پڑتی اس لیے اسے علیحدہ بیان کیا مگر پہلی بات قوی ہے کیونکہ دوسری آفتوں کا مقابلہ کبھی انسان سے ناممکن ہوجاتا ہے،بارش اوپر سے اور دریاؤں کا سیلاب ہر چہار طرف سے آتا ہے اور انسان کو بے بس کردیتا ہے،انسان تو مکھی مچھر کا مقابلہ نہیں کرسکتا،بس اﷲ تعالٰی اپنی امان میں رکھے۔