مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو صبح کے وقت کہہ دے کہ اﷲ کی پاکی ہے شام و سویرا پاتے وقت اس کی حمد ہو رہی ہے آسمانوں اور زمین میں اور عصر اور ظہر کو بھی تسبیح پڑھو،الخ ۱؎ کذلك تخرجون تک۔تو اس دن میں جو نیکی چھوٹ گئی ہو اسے پالے گا اور جو شام کے وقت یہ پڑھ لے گا تواس رات میں چھوٹی نیکیاں پائے گا ۲؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ اس آیت کریمہ میں سبحان اﷲ سے مراد یا تو رب تعالٰی کی تسبیح پڑھنا ہے یعنی اے مسلمانوں صبح و شام رب تعالٰی کی بارگاہ میں تسبیح کا ہدیہ پیش کیا کرو اور یا اس سے مراد نماز یں ہیں کیونکہ نماز شروع سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ سے ہوتی ہے جزو بول کر کل مراد لیا گیا یعنی صبح شام نماز فجر و مغرب پڑھا کرو،دوسرے معنی زیادہ قوی ہیں۔وَلَہُ الْحَمْدُ جملہ معترضہ ہے یعنی آسمان و زمین والے رب تعالٰی کی حمد و ثناء کرتے ہیں ہر ذرہ قطرہ ہر فرشتہ و تارہ حمد الٰہی کرتا ہے تو مسلمانو تم کیوں خاموش رہتے ہو اس کے بعد پھر نماز کا ذکر ہوا "وَعَشِیًّا وَّ حِیۡنَ تُظْہِرُوۡنَ"۔عشیا سے وقت عصر مراد ہے اور تظھرون سے وقت ظہر مراد۔غرضکہ اس آیت میں نماز پنجگانہ کا حکم ہوا کیونکہ تُمْسُوۡنَ یعنی شام کے وقت میں مغرب و عشاء داخل ہیں کیونکہ ان اوقات میں انسان کے حالات تبدیل ہوتے ہیں اور رب تعالٰی کی نعمتوں کی تجدید اس لیے خصوصیت سے ان اوقات میں تسبیح و تہلیل کا بھی حکم ہے اور ان ہی وقتوں میں نمازیں بھی فرض ہیں تاکہ ہر حال رب کی حمد سے شروع ہو۔ان اوقات کی اہمیت ہماری کتاب "تفسیرنعیمی"میں ملاحظہ فرمائیے۔ ۲؎ نیکی چھوٹ جانے سے مراد نوافل نیکیاں چھوٹ جانا ہیں یا فرائض عبادات میں نقصان رہ جانا ہے،یعنی ر ب تعالٰی آیتِ کریمہ کی برکت سے بہت ہی نفلی نیکیوں کا اجر عطا فرمائے گا اور اگر آج دن رات کے فرائض میں کچھ نقصان واقع ہوگیا ہوگا تو رب تعالٰی نقصان پورا فرمادے گا۔اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام فرائض و واجبات چھوڑ دو صرف یہ ہی آیت صبح شام پڑھ لیا کرو۔