مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت ابو عیاش سے ۱؎ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ کہہ لیا کرے کہ اکیلے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کاکوئی شریک نہیں اسی کا ملک ہے،اسی کی حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اسے اولاد اسمعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے۲؎ اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ معاف ہوں گے اوراس کے دس درجے بلند ہوں گے ۳؎ اور اس کے لیے شام تک شیطان سے حفاظت ہوگی ۴؎ اور اگریہ کلمات شام کے وقت کہہ لے تو صبح تک اسے یہ ہی ملے گا،ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا ۵؎ عرض کیا یارسول اﷲ ابو عیاش آپ سے ایسی ایسی حدیث روایت کرتے ہیں،فرمایا ابو عیاش سچے ہیں ۶؎ (ابوداؤد،ابن ماجہ)۷؎
شرح
۱؎ ابو عیاش دو ہیں:ایک کا نام تو زید ابن صامت ہے،کنیت ابو عیاش،یہ انصاری ہیں،دوسر ے زید ابن عیاش مخزومی ہیں،یہ تابعی ہیں،یہاں پہلے ابو عیاش مراد ہیں جو صحابی ہیں۔(لمعات،اشعہ)مصابیح کے بعض نسخوں میں یہاں ابن عباس ہے وہ غلط ہے صحیح ابو عیاش ہی ہے۔(مرقات) ۲؎ اسلام میں یوں تو غلام آزاد کرنا بڑا ثواب ہے خصوصًاجب کہ غلام اولاد حضرت اسمعیل علیہ السلام سے ہو اس کا آزاد کرنا تو بہت ہی ثواب ہے کہ اس میں ایک نبی کی اولاد پر احسان بھی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی اولاد پر مہربانی کرنے میں زیادہ ثواب ہے۔بعض حضرات گیارھویں شریف کا تبرک حضرات سادات کرام کو دیتے ہیں ان کی اصل یہ ہی حدیث ہے،یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کی اولاد ہونا اﷲ کی نعمت ہے،شرافت خاندان سے بھی ملتی ہے۔اس کی نفیس تحقیق ہماری کتاب"الکلام المقبول فی شرافۃ نسب الرسول"میں ملاحظہ فرمائیے۔اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اہل عرب کو غلام بنایا جاسکتا ہے یہاں تو ان عرب غلاموں کی آزادی کا ذکر ہے جو پہلے سے غلام بنائے جاچکے تھے۔ ۳؎ درجوں سے مراد یا تو دنیا میں ایمانی درجے ہیں یا آخرت کے جناتی درجے یعنی یہ کلمات پڑھ لینے والے کے ایمان دس درجہ بڑھیں گے یا قیامت میں اس کے دس درجے جنت میں اونچے ہوں گے ان درجوں کی بلندی رب تعالٰی ہی جانتا ہے۔ ۴؎ اس طرح کہ ان شاءاﷲ شام تک شیطان اسے نہ گمراہ کر سکے گا نہ اس سے گناہ کبیرہ کراسکے،ہاں نفس کی شرارت سے گناہ ہوجائیں تو ہوجائیں یا شیطان اسے دیوانہ و بیمار نہ کرسکے گا،بعض بیماریاں وجنون شیطانی اثر سے ہوتے ہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:"الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّ"۔غرضکہ یہ دعا ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ۵؎ ظاہر یہ ہے کہ یہ خواب دیکھنے والا راویان حدیث میں سے کوئی راوی ہے۔ممکن ہے کہ کوئی اور صاحب ہوں جنہیں یہ حدیث پہنچی ہو۔ ۶؎ یہ خواب یہاں اس لیے نقل فرمایا کہ اس سے حدیث کی صحت معلوم ہوتی ہے۔پتہ لگا کہ کبھی سچے خواب سے حدیث کو قوت پہنچ جاتی ہے بشرطیکہ خواب مخالف قانون شرعی نہ ہو،کیوں نہ ہو کہ خواب نبوت کے فیضان کا چھیالیسواں۴۶ حصہ ہے،جب سچے خواب سے حدیث کو تقویت پہنچ سکتی ہے تو ولی کے صحیح کشف سے بھی قوت پہنچ سکتی ہے۔مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے حضرت جنید کا واقعہ اپنی کتاب تحذیر الناس میں نقل فرمایا کہ بارہ ہزار کلمہ شریف سے عذاب سے نجات ہونے کی حدیث کو ایک جوان صالح کے کشف سے قوت ہوئی مگر جو خواب یا الہام خلاف شرع ہو وہ الہام نہیں بلکہ وسوسہ شیطان ہے۔ ۷؎ اسے نسائی،ابن ابی شیبہ اور سنی نے بھی روایت کیا،ان کی روایات کے آخر میں کچھ کلمات زیادہ ہیں۔