Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
11 - 671
حدیث نمبر 11
روایت ہے حضرت عبداﷲ ۱؎ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم شام کے وقت یہ پڑھتے تھے ہم نے اور اﷲ کے سارے ملک نے شام پالی۲؎  اﷲ کا شکر ہے،اکیلے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں،اس کا ملک ہے،اسی کی تعریف ہے ۳؎ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔الٰہی میں تجھ سے اس رات کی بھلائی،اس کے بعد کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس رات کی شر اور اس کے بعد کی شر سے پناہ مانگتا ہوں ۴؎ یارب میں سستی اور بڑھاپے برے ۵؎ یا کفر سے اور ایک روایت ہے کہ برے بڑھاپے اور تکبر سے تیر ی پناہ مانگتا ہوں ۶؎ یارب میں آگ کے عذاب اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتاہوں ۷؎ اور جب سویرا پاتے تو بھی کہتے کہ ہم نے اور اﷲ کے سارے ملک نے صبح پالی۔(ابوداؤد،ترمذی)اور ایک روایت میں کفر کی ہر بر ائی کا ذکر نہ فرمایا۔
شرح
۱؎ عبداﷲ سے مراد حضرت عبداﷲ ابن مسعود ہیں جو بڑے فقیہ مشہور صحابی ہیں۔(اشعۃ اللمعات)

۲؎ اﷲ کے سارے ملک سے مراد عالم اجسام ہے کیونکہ عالم انوار اور عالم امر وغیرہ پر نہ رات آئے نہ دن،اسی طرح جنت و دوزخ میں سورج کا اثر نہیں وہاں رب کی تجلی ہے۔اَمْسَیْنَا میں یا تو خود حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات بابرکات مراد ہے یا سارے مسلمان یا سار ے انسان اگرچہ ملک اﷲ میں انسان بھی داخل تھا مگر چونکہ یہ اشرف المخلوق ہے اس لیے اس کا ذکر خصوصیت سے فرمایا لہذا حدیث بالکل واضح ہے۔

۳؎ یعنی حقیقی ملک اور حقیقی حمد صرف رب تعالٰی کی ہے،دوسروں کا ملک بھی مجازی و عارضی ہے اور حمد بھی مجازی،مصنوع کی تعریف دراصل صانع کی تعریف ہے۔

۴؎  یعنی اس رات کی شر سے بھی تیری پناہ اور آئندہ راتوں کی شر سے بھی تیری پناہ۔شر سے مراد تشر یعی تکوینی دونوں شریں ہیں۔راتوں میں نیکیوں کی توفیق نہ ملنا،گناہ سرزد ہوجانا،راتیں غفلت میں گزارنا  ان کی تشریعی شر ہے  اور راتوں میں چوری ڈکیتی گھر گر جانا،اندھیرے میں زہریلے جانوروں کا  کاٹ کھانا وغیرہ تکوینی شریں ہیں،یہ ایک لفظ ان تمام کو شامل ہے۔

۵؎ سستی سے مراد نیکیوں میں سستی ہے جس سے یا تو نیکیاں ہوں ہی نہیں یا ہوں مگر بگڑ کر  اور برے بڑھاپے سے مراد وہ بڑھاپا ہے کہ قوتیں جواب دے جائیں اور دوسروں پر انسان بوجھ بن جائے،اﷲ اس عمر سے بچائے۔شعر

دانت گرے اور کھر گھسے پیٹھ بوجھ نہ لے  		ایسے بوڑھے بیل کو کون باندھ کر بُھس دے

۶؎ تکبر اﷲ تعالٰی کی تو صفت اس کا نام ہے متکبر یعنی بہت ہی بڑائی والا مگر بندے کے لیے تکبر کبھی عیب ہے،کبھی خوبی،بندے کے لیے اس کے معنے ہیں بڑائی کا اظہار اگر یہ کفار کے مقابلہ میں ہو خصوصًا جنگ کی حالت میں تو بہت ہی اچھا ہے،خود حضورانور صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین میں فرمایا انا ابن عبدالمطلب اور مسلمان کے مقابلہ میں ہو شیخی کے طور پر تو برا  اور اگر رب تعالٰی کی نعمت کے اظہار کے لیے ہو تو اس کا نام شکر ہے یہ عبادت ہے  اور اﷲ رسول کے مقابلہ میں تکبر  کفر ہے،یہاں تکبر سے  برا تکبر مراد ہے جو حرام یا کفر ہے۔

۷؎ دوزخ  اور قبر دونوں جگہ آگ ہی کا عذاب ہوگا اگر دوزخ کا عذاب آگ میں عذاب ہے اور قبر کا عذاب آگ سے عذاب ہے کہ آگ دوزخ میں ہے مگر اس کی گرمی قبر میں،چونکہ دوزخ کا عذاب سخت ہے اور قبر کا عذاب اس سے نرم و ہلکا اسی لیے پہلے دوزخ کے عذاب کا ذکر فرمایا بعد میں قبر کے عذاب کا یعنی میں دوزخ و قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔مقصد یہ ہے کہ خدایا مجھے زندگی میں ایسے اعمال سے بچالے جو عذابِ دوزخ یا عذابِ قبر کا سبب ہیں ا ور بعد موت قبر کے عذاب سے بچا  اور بعد حشر دوزخ کے عذاب سے۔
Flag Counter