Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
10 - 671
حدیث نمبر 10
روایت ہے حضرت ابان ابن عثمان سے ۱؎ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد کو فرماتے سنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایسا کوئی بندہ نہیں جو ہر دن صبح شام اور ہر رات تین بار یہ کہہ لیا کرے میں نے اس کے نام سے صبح و شام کی جس کے نام کی برکت سے نہ زمین کی کوئی چیز نقصان دے نہ آسمان کی اور وہ سنتا جانتا ہےپھر اسے کوئی چیز نقصان بھی دے دے۲؎ حضرت ابان کو کچھ فالج ہوگیا تو ایک شخص انہیں غور سے دیکھنے لگا۳؎  آپ نے اس سے فرمایا کہ تو مجھے کیا دیکھتا ہےحدیث ویسی ہے جیسی میں نے تجھے سنائی لیکن اس دن میں یہ دعا نہ پڑھ سکا کہ اﷲ مجھ پر اپنی قضا قدر نافذ کردے ۴؎ (ترمذی،ابن ماجہ،ابواؤد)ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ اسے صبح بلاء ناگہانی نہ پہنچے گی اور جو صبح کو یہ پڑھے تو اسے شام تک آفت ناگہانی نہ پہنچے گی ۵؎
شرح
۱؎ آپ قرشی ہیں،تابعی ہیں،حضرت عثمان ابن عفّان کے فرزند ہیں،اپنے والد اور دیگر صحابہ سے بہت سی احادیث لیں اور ان سے امام زہری وغیرہ  اکابر ملت نے،مدینہ منورہ میں قیام رہا، یزید ابن عبدالملک ابن مروان کے زمانہ میں وفات پائی۔

۲؎ یہ دعا مجرب ہے،فقیر بفضل رب قدیر اس کا عامل ہے،الحمدﷲ  اس کی برکت سے ہرآفت سے امن رہا ہے،صبح پڑھ لو شام تک حفاظت ہے اور شام کو پڑھو تو صبح تک امن۔

۳؎ یعنی جن لوگوں نے آپ سے یہ حدیث سنی تھی ان سے کوئی تعجب کرکے آپ کو دیکھنے لگا کہ آپ تو یہ حدیث روایت کرتے تھے اور یقین ہے کہ آپ اس پر عامل بھی ہوں گے اور یہ دعا پڑھتے بھی ہوں گے پھر آپ پر فالج کا اثر کیوں ہوگیا اور اس آفت سے آپ امن میں کیوں نہ رہے،حضرت ابان ان کا تعجب سمجھ گئے اس لیے آپ نے وہ جواب دیا جو آگے آرہا ہے۔

۴؎ سبحان اﷲ! کیا پاکیزہ فرمان ہے کہ حدیث سچی حدیث والے محبوب سچے ارادۂ الٰہی برحق،جس دن مجھے فالج ہونے والا تھا اس دن میں یہ عمل پڑھنا ہی بھول گیا تھا اس لیے یہ فالج ہوا۔

۵؎ یہ الفاظ گزشتہ الفاظ کی گویا شرح ہے کہ اس دعا کی برکت سے ناگہانی بیماری اور زہریلے جانور کے کاٹنے اور دوسری اچانک آفتوں سے حفاظت رہتی ہے دوسری قسم کی مصیبت آسکتی ہے۔خیال رہے کہ کسی دعا سے موت نہیں ٹل سکتی وہ تو یقینی آتی ہے جسے کوئی تدبیر نہیں ٹال سکتی  نہ دعا،نہ د وا۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ فجاءت سے مراد کوئی بڑی آفت ہے جو انسان کو گھبرا دے،اچانک ہو یا  آہستہ،معمولی تکالیف و بیماریاں تو انسان کو لگی ہی رہتی ہیں۔
Flag Counter