مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم |
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو صدقہ پر عامل بناکر بھیجا عرض کیا گیا کہ ابن جمیل ۱؎ اور خالد ابن ولید اور عباس نے نہ دیا۲؎ تب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل تو صرف اس لیے انکارکرتا ہے کہ وہ فقیر تھا اﷲ رسول نے اسے غنی کردیا۳؎ لیکن خالد پر تم زیادتی کرتے ہو انہوں نے اپنی زرہیں اﷲ کی راہ میں وقف کردیں۴؎ رہے عباس تو ان کی زکوۃ ساتھ میں اتنی اور میرے ذمہ ہے۵؎ پھر فرمایا اے عمر کیا تمہیں خبر نہیں کہ انسان کا چچا اس کے باپ کے برابر ہوتا ہے ۶؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے فصل صحابہ میں فرمایا کہ ابن جمیل کا ذکر صرف کتاب الزکوۃ میں آیا اس کے نام کا پتہ نہیں،فتح الباری میں ہے کہ اس کا نام عبداﷲ یا حمید تھا،پہلے یہ غریب آدمی تھا نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے مالداری کی دعا کرائی پھر مالدار ہوکر منافق ہوگیا اور زکوۃ کا انکارکرنے لگا اسی کے بارے میں یہ آیت کریمہ آئی"وَمِنْہُمۡ مَّنْ عٰہَدَ اللہَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ"یہ شخص عہد مرتضوی میں منافقت پر ہی فوت ہوا۔خیال رہے کہ ابن جمیل نے صراحۃً زکوۃ کا انکار نہ کیا تھا ورنہ مرتد اور واجب القتل ہوجاتا بلکہ حیلے بہانے بنائے جس سے اس کی کبیدگی خاطرمحسوس ہوئی۔ ۲؎ ابن جمیل نے تو بلا وجہ اور ان دو بزرگوں نے کسی معذوری سے۔اس سے معلوم ہوا کہ حاکم یا استاد سے رعایا شاگردوں کی پس پشت شکایات کرنا جائز ہے یہ غیبت نہیں بلکہ اصلاح ہے۔ ۳؎ یعنی ابن جمیل کا زکوۃ نہ دینا محض کفرانِ نعمت کی بنا پر ہے کسی مجبوری سے نہیں۔اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے دلوں کا حال جانتے ہیں۔دیکھو یہاں بظاہر تینوں صاحبوں سے ایک فعل واقع ہوا مگر ملامت صرف ایک پر کی گئی جس کے دل میں کھوٹ تھا۔دوسرے یہ کہ یہ کہہ سکتے ہیں اﷲ رسول غنی کرتے ہیں اﷲ رسول دونوں جہان کی نعمتیں بخشتے ہیں،رب تعالٰی فرماتاہے:"اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضْلِہٖ"اور فرماتاہے:"اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ"۔اسے شرک کہنے والے ان آیات واحادیث پر غورکریں۔ ۴؎ یعنی خالد اتنے سخی ہیں کہ انہوں نے نفلی طور پر اپنا سامان جنگ تک وقف کردیا ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ زکوۃ فرضی ادا نہ کریں ان پر زکو ۃ فرض ہوگی ہی نہیں تم نے غلطی سے ان سے مطالبہ کیا یا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ حتی کہ سامان جنگ بھی وقف کردیا اور مال وقف میں زکوۃ نہیں ہوتی لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ کچھ وقف کردینے سے نصاب کی زکوۃ کیسے معاف ہوگئی۔اس جملہ سے معلوم ہوا کہ منقول چیزوں کا وقف مطلقًا جائز ہے یہی امام اعظم کا قول ہے،شیخین کے نزدیک منقول چیز غیرمنقول کے تابع ہوکر وقف ہوسکتی ہے،یہ بھی معلوم ہوا کہ واقف کا موقوف کو اپنے قبضہ میں رکھنا درست ہے جیسے بعض واقفین اپنی زندگی بھر تولیت اپنے لیے مقررکرلیتے ہیں۔ ۵؎ اس جملے کی تفسیر میں بہت قول ہیں:بعض نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دو سال کی زکوۃ پیشگی وصول فرماچکے تھے،بعض نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سے وصول کرلیں گے ہم اس کے ضامن ہیں مگر یہ تفسیر اگلے جملہ کے موافق نہیں۔ظاہر یہ ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زکوۃ اپنے ذمہ لے لی اور فرمایا ان سے مت مانگنا ان کی زکوۃ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اتنا ہی صدقہ نفلی ان کی طرف سے ہم ادا کریں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ مالی عبادتوں میں نیابت جائز ہے یعنی ایک دوسرے کی طرف سے ادا کرسکتے ہیں۔حضرت عباس حضور علیہ السلام کے احسانات کے پہلے ہی عادی تھی انہیں خبرتھی کہ حضور انور میری زکوۃ ادا کردیں گے۔ ۶؎ لہذا حضرت عباس جو میرے چچا ہیں وہ میرے والد حضرت عبداﷲ کی مثل ہیں اس لیے مجھ پر ان کی خدمت لازم ہے،ان کی زکوۃ اداکرنا یہ بھی ان کی خدمت ہے اور اے عمر تم ان پر نہ تقاضاکرنا نہ ملامت بلکہ میرے اس رشتہ کی وجہ سے ان کا ہمیشہ ادب کرنا۔(ازمرقاۃ ولمعات)خیال رہے کہ صِنُوْ ایک جڑ کے دو درختوں کو کہتے ہیں،رب تعالٰی فرماتاہے:"صِنْوَانٌ وَّغَیۡرُ صِنْوَانٍ"چونکہ چچا اور والد دادا کی اولاد ہوتے ہیں اس لیے اس افصح الفصحاء صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صِنُوْ فرمایا۔