Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم
19 - 5479
الفصل الثالث

تیسری فصل
حدیث نمبر 19
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے اور دیہاتیوں میں جو کافر ہوئے وہ ہوئے ۱؎ تو حضرت عمر ابن خطاب نے حضرت ابوبکر سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے جنگ کیسے کریں گے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیاحتی کہ وہ کہیں لا الہ الا اﷲ تو جس نے لا الہ الا اﷲ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنی جان و مال بچالیے مگر حق اسلام کے ماتحت اور اس کا حساب اﷲ کے ذمہ ہے۲؎ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا رب کی قسم میں اس پر جہاد کروں گا جو نمازو زکوۃ میں فرق کرے کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے۳؎ اﷲ کی قسم اگر وہ مجھے بکری کا بچہ نہ دیں جو حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس منع کرنے پر ان سے جہاد کروں گا۴؎ حضرت عمر فرماتے ہیں خدا کی قسم میرا یہ حال ہوا کہ میں نے یہ یقین سے جان لیا کہ اس جہاد کے لیے ابوبکر کا سینہ رب نے کھولا ہے میں پہچان گیا کہ یہ جہاد برحق ہے۵؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ خیال رہے کہ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبیلہ غطفان فزارہ،بنی سلیم وغیرہ نے وجوب زکوۃ کا انکارکردیا اور بولے کہ رب تعالٰی فرماتاہے:"خُذْ مِنْ اَمْوٰلِہِمْ صَدَقَۃً"یارسول اﷲ ان کے مال کی زکوۃ آپ وصول کرو جب وصول کرنے والے تشریف لے گئے تو زکوۃ بھی ختم،حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں مرتد قرار دیا اور ان پر جہاد کی تیاری فرمائی،اسی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا تھا"وَمَنۡ یَّرْتَدَّ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ"الایۃ۔یہ صدیقی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو ان مرتدین کی سرکوبی کے لیے رب تعالٰی کی طرف سے مقرر ہوئی،یہ خدا کو پیاری خدا اسے پیارا۔خیال رہے کہ اسی عہد صدیقی میں بہت سے لوگ مسیلمہ کذاب کو نبی ماننے لگے اور مرتد ہوگئے،پہلے مرتدین پر آپ نے لشکر کشی کی ہی تھی کہ وہ توبہ کر گئے مگر ان دوسرے مرتدین سے بہت گھمسان کارن پڑا جس میں اکثر قاری اور حافظ صحابہ شہید ہوگئے جس پر جمع قرآن کی ضرورت پیش آئی اور حضرت صدیق نے قرآن پاک جمع فرمایا،اس موقعہ کی قرآن کریم نے اس طرح خبردی"قُلۡ لِّلْمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰی قَوْمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقٰتِلُوۡنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوۡنَ"الخ۔

۲؎ فاروق اعظم اولًا منکرین زکوۃ پر جہاد کے مخالف تھے ان کی دلیل اس حدیث کے ظاہری الفاظ تھے کہ کلمہ گو پر جہاد کیسا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری کلمہ پڑھنے والے منافقین پر جہاد نہ فرمایا تو یہ مانعین زکوۃ تو دل سے کلمہ پڑھ رہے ہیں اور زکوۃ کے سوا تمام فرائض کے معتقد ہیں تو ان پر آپ جہاد کیسے کرسکتے ہیں۔فاروق اعظم کی پیش کردہ حدیث کی پوری شرح مکمل بحث کے ساتھ کتاب الایمان کے شروع میں ہوچکی کہ یہاں حتی بمعنی کے ہے۔

۳؎ صدیق اکبر کا یہ جواب نہایت جامع اور مختصر ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اے عمر تم نے اپنی حدیث میں یہ لفظ نہ دیکھا اِلَّابِحَقِّہٖ یعنی کلمہ گو کو حق اسلام کی وجہ سے قتل کیا جاسکتا ہے،نماز بھی حق اسلام ہے اور زکوۃ بھی،جو ان دونوں میں فرق کرے کہ نماز کو مانے زکوۃ کا انکارکرے وہ یقینًا مستحق جہاد ہے۔رہے منافقین ان کے متعلق حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حدیث میں فرمایا"وَحِسَابُہُمْ عَلَی اﷲِ"یعنی ہم دل سے بحث نہ کریں گے جو کوئی بظاہر اسلام کے سارے ارکان کا اقرار کرے ہم اس پر جہاد نہ کریں گے،دل میں اس کے کچھ بھی ہو،منافقین کسی رکن اسلامی کے زبان سے منکر نہ تھے سبحان اﷲ! کیا پاکیزہ استدلال ہے۔

۴؎ یعنی اے عمر وجوب زکوۃ کا انکار تو بڑی چیز ہے اگر وہ لوگ ظاہری مال یعنی پیداوار اور جانوروں کی زکوۃ ہمارے بیت المال میں داخل نہ کریں تب بھی تو وہ سرکوبی کے مستحق ہیں کیونکہ اس میں ایک سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدہ و دانستہ انکارہے۔اس جگہ مرقات میں ہے کہ اگر کوئی قوم اذان دینا چھوڑ دے تو سلطان اسلام ان سے بھی جنگ کرے گا کیونکہ اس میں شعار اسلامی کا بندکرنا ہے۔خیال رہے کہ اب چونکہ بادشاہ عمومًا لاپرواہ اور حکام فاسق ہوگئے جن سے امید نہیں کہ زکوتوں کو ان کے مصرفوں پر صرف کریں لہذا اب انہیں کوئی زکوۃ نہ دی جائے اسی لیے صدیق اکبر نے مَنَعُوْنِیْ فرمایا یعنی مجھے اور مجھ جیسے عادل سلطان اسلام(جس کے سارے حکام منصف ہوں)کو زکوۃ نہ دیں تو ان پر جنگ ہوگی۔مرقات نے اس جگہ فرمایا کہ عثمان غنی کے زمانہ میں لوگوں کا حال بدل گیا تھا اس لیے آپ نے زکوۃ وصول کرنے میں سختی نہ فرمائی بلکہ مال والے اپنی زکوتیں خود دینے لگے اور کسی صحابی نے آپ کے اس عمل پر انکار نہ کیا۔خیال رہے کہ وجوب زکوۃ کا انکار کفر ہے ایسے لوگوں پر اسلامی جہاد ہوگا اور اس زمانہ میں خلیفۃ المسلمین کو زکوۃ نہ ادا کرنا بغاوت تھی جس پر ان کے خلاف تادیبی کاروائی حتی کہ جنگ بھی کی جاسکتی تھی لہذا یہ حدیث بالکل واضح ہے اور اس کے شروع میں"کَفَرَ مَنْ کَفَرَ"فرمانا بالکل درست ہے۔مرقات میں یہاں ہے کہ احناف کے نزدیک حاکم کو جبرًا زکوۃ وصول کرنے کا حق نہیں،شوافع کے ہاں ہے،یہ حدیث چونکہ منکرین زکوۃ کے متعلق ہے اس لیے احنا ف کے خلاف نہیں۔

۵؎ یعنی میں نے حضرت صدیق کی رائے کی طرف رجوع کرلیا۔اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ صدیق اکبر بعد نبی تمام مخلوق سے بڑے عالم اور بڑے سیاست دان تھے،انہی کے علم پر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا دفن اپنے حجرے میں ہوا،انہی کے علم پرحضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال وقف بنا،انہی کے علم پر اس جہاد کی تیاری ہوئی،اگر آج آپ تھوڑی نرمی کرتے تو فرائض اسلامی کے انکار کا دروازہ کھل جاتا اسی لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت آپ ہی کو جانشین امام نماز بنایا،انہی کی سیاست سے حجاز بلکہ عرب میں امن و امان بحال ہوا اور فاروقی فتوحات کے لیے راستہ صاف ہوا۔دوسرے یہ کہ ایک شعار اسلامی کا انکار بھی ایسا ہی کفر ہے جیسے سارے ارکان کا انکار۔تیسرے یہ کہ کلمہ گو مرتدین پر جہاد کیا جائے گا۔
Flag Counter