مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم |
روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو فرمایا کہ جو کسی یتیم کا والی ہو جس کے پاس مال ہو تو وہ اس میں تجارت کرے اسے چھوڑے نہ رکھے کہ زکوۃ کھا جائے ۱؎ (ترمذی)فرمایا ترمذی نے کہ اس کی اسناد میں کچھ گفتگو ہے کیونکہ مثنٰی بن صباح ضعیف ہے۔
شرح
۱؎ اس حدیث کی بنا پر امام شافعی و مالک و احمد نے فرمایا کہ نابالغ بچے کے مال میں زکوۃ واجب ہے،دیکھو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کے ولی کو حکم دیا کہ یتیم کا مال تجارت سے بڑھاؤ ایسا نہ ہوکہ ہر سال اس میں زکوۃ نکلتی رہے اور مال ختم ہو جائے،امام اعظم کے نزدیک بچے اور دیوانے کے مال میں زکوۃ نہیں کیونکہ زکوۃ بھی نماز روزہ کی طرح محض عبادت ہے جب اس پر نماز روزہ اور حج نہیں تو زکوۃ بھی نہیں۔ابوداؤد،نسائی اور حاکم نے باسناد صحیح روایت کی کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین شخص مرفوع القلم ہیں:سونے والا حتی کہ جاگ جائے،بچہ یہاں تک کہ بالغ ہوجائے،دیوانہ تا آنکہ عاقل ہوجائے۔امام محمد نے کتاب الآثار میں حضرت ابن مسعود سے روایت فرمائی آپ فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال میں زکوۃ نہیں،اسی طرح حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔رہی یہ حدیث وہ چند طرح مجروح ہے کیونکہ تدلیس ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ نہ عمرو ابن شعیب نے اپنے دادا محمد ابن عمرو کو دیکھا اور نہ ان کے دادا نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی مگر طریقۂ بیان ایسا ہے کہ معلوم ہوتا ہے دونوں ملاقاتیں ثابت ہیں یعنی غیرمتصل معلوم ہوتی ہے اسی کو تدلیس کہتے ہیں، نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ مثنے ابن صباح راوی ضعیف ہیں اور امام احمد نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں،دار قطنی نے اس کی دو اسنادیں نقل کیں اور دونوں کو ضعیف کہا۔ بہرحال یہ حدیث قابل حجت نہیں،مذہب حنفی نہایت قوی ہے۔خیال رہے کہ محض عبادت بچے پر فرض نہیں لیکن ٹیکس اور خراج بچے کے مال سے لیے جائیں گے کیونکہ وہ محض عبادت نہیں ان پر زکوۃ کو قیاس نہیں کرسکتے۔