۱؎ یعنی ادائے زکوۃ اور وجوب زکوۃ کے لیے کوئی مہینہ یا تاریخ مقرر نہیں جیساکہ پنجاب میں ماہ رجب کے اور کاٹھیاواڑ میں ماہ رمضان کو زکوۃ کا مہینہ سمجھا گیا ہے بلکہ جب مال پر سال گزرے گا زکوۃ واجب ہوگی۔خیال رہے کہ سال گزرنا زکوۃ کے لیے شرط وجوب ہے لہذا اگر کوئی مالک نصاب ہوتے ہی زکوۃ دیناشروع کردے اور سال پر حساب کرے یا چند سالوں کی زکوۃ ایک دم ادا کردے تو جائز ہیں اس حدیث کے خلاف نہیں،نیز اصل نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے زائد پر ضروری نہیں،لہذا گر کسی کے پاس گیارہ مہینے تک ہزار روپے رہے اور بارھویں مہینہ دس ہزار روپے اور آگئے تو یہ گیارہ ہزار کی زکوۃ دے گا اگرچہ اس دس ہزار پر تیس دن ہی گزرے ہیں کیونکہ اصل نصاب یعنی ہزار پر سال گزر چکا،یہ مسئلہ بھی اس حدیث کے خلاف نہیں۔اس کی پوری بحث فتح القدیر اور مرقات میں اسی مقام پر دیکھو،اگر ہر پیسہ پر الگ سال گزرنا شرط ہوتو تاجروں کو مصیبت آجائے کیونکہ ان کے پاس روزانہ سینکڑوں روپے آتے جاتے رہتے ہیں۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مَنِ اسْتَفَادَ میں بڑی وسعت ہے،مال جیسے بھی حاصل ہو کماکر وراثت سے یا کسی کے عطیہ سے بہرحال سال کے بعد اس میں زکوۃ ہے کمانے ہی کی شرط نہیں۔
۲؎ یعنی خود ان کا قول نقل کیا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہ کیا اور ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ ایسی موقوف حدیثیں جن میں قیاس کو دخل نہیں مرفوع کے حکم میں ہیں،یعنی ان صحابی نے حضور علیہ السلام سے سن کر ہی کہی ہیں۔