Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم
11 - 5479
۱؎ کیونکہ مسلمانوں نے کنز کے لغوی معنے مراد لیے یعنی مطلقًا جمع کرنا اور یہ سمجھے کہ سونے چاندی کو جمع کرنا بہرحال حرام ہے اور قیامت کے دن داغ کا باعث ہے حالانکہ بغیر کچھ جمع کئے دنیوی کاروبار نہیں چل سکتے۔

۲؎ یعنی آیت کے ظاہری معنے مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلام درمیانی دین ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور قرآن کریم میانہ روی سکھانے والی کتاب،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس دین میں مال جمع کرنا مطلقًا حرام ہوجائے پھر جہاد کیسے ہونگے اور زکوۃ کس چیز کی دی جائے گی ہماری سمجھ میں غلطی ہے۔

۳؎ یعنی یہاں کنز کے اصطلاحی معنے مراد ہیں کہ مال جمع رکھنا،اس سے اﷲ کے حق نہ نکالنا،فقراء کے حقوق ادا نہ کرنا۔خیال رہے کہ زکوۃ نکالنے سے مال ایسا ہی پاک ہوجاتاہے جیسے جانور کا خون نکل جانے سے گوشت یا کیلے اور آم وغیرہ کا چھلکا علیحدہ کردینے سے مغز کھانے کے قابل ہوجاتاہے،رب تعالٰی فرماتاہے:"خُذْ مِنْ اَمْوٰلِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا"۔

۴؎ یعنی اگر مال جمع کرنا  مطلقًا حرام ہوتا تو اس میں سے زکوۃ کیوں دی جاتی اور مالک کے مرنے کے بعد بطور وارثت دوسروں کو کیسے ملتا۔ان احکام سے معلوم ہورہا ہے کہ مال کا جمع کرنا منع نہیں بلکہ عبادت ہےکیونکہ بہت سی عبادتوں کا موقوف علیہ ہے اور عبادت کا موقوف علیہ بھی عبادت ہوتا ہے،زکوۃ جب ادا ہو جب سال بھر مال مالک کے پاس جمع رہے اور میراث جب بٹے جب مرتے وقت تک مال مالک کے پاس جمع رہے۔خیال رہے کہ وذکر کلمۃ راوی کا قول ہے یعنی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور بھی فرمایا جو مجھے یاد نہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بعد والوں کو مال ملے۔

۵؎ یعنی مسئلہ حل ہوجانے پر جناب فاروق اعظم کو خوشی ہوئی اور خوشی میں اﷲ اکبر کہا۔اس سے معلوم ہوا کہ دینی مسئلہ معلوم ہونے پر خوش ہونا اور خوشی میں اﷲ اکبر کا نعرہ لگانا سنت صحابہ ہے۔

۶؎  یعنی اے عمر اگرچہ مال جمع کرنا جائزہے مگر تم لوگ اسے اپنا اصل مقصود نہ بنالو اس سے بھی بہتر مسلمان کے لیے نیک بیوی ہے کہ صورت بھی اچھی ہو اور سیرت بھی کہ اس کے نفع مال سے زیادہ ہیں کیونکہ سونا چاندی اپنی ملک سے نکل کر نفع دیتے ہیں اور نیک بیوی اپنے پاس رہ کر نافع ہے،سوناچاندی ایک بار نفع دیتے ہیں اور بیوی کا نفع قیامت تک رہتا ہے مثلًا رب تعالٰی اس سے کوئی نیک بیٹا بخشے جو زندگی میں باپ کا وزیر بنے اور بعدموت اس کا خلیفہ۔حدیث شریف میں ہے کہ نکاح سے مرد کا دو تہائی دین مکمل ومحفوظ ہوجاتاہے۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ جمیلہ عورت کا چہرہ جمال الٰہی کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کی نیک خصلت صفات الٰہی کا مظہر ہوتی ہے۔سبحان اﷲ! سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کتنا جامع ہے عورت کی سیرت دوکلموں میں بیان فرمادی کہ جب خاوند گھر میں موجود ہو تو اس کی ہر جائز بات مانے اور جب غائب ہو یعنی سفر میں ہو یا مرجائے تو اس کے مال،عزت و اسرار کی حفاظت کرے یعنی آمنہ  امینہ و مامونہ ہو۔
حدیث نمبر 11
روایت ہے حضرت جابر ابن عتیک سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تمہارے پاس غیر پسندیدہ سوار آیا کریں گے تو وہ جب آئیں تم انہیں خوش آمدید کہو اور جو وہ چاہتے ہوں ان کے سامنے حاضر کردو ۲؎ پھر اگر وہ انصاف کریں تو اس میں ان کا فائدہ ہے اور اگر ظلم کریں تو انہیں مضر ہے تمہاری زکوۃ کی تکمیل ان کا راضی ہوناہے چاہیئے  کہ وہ تمہیں دعائیں دیں۳؎(ابوداؤد)
شرح
۱؎ آپ انصاری ہیں اورمشہورصحابی ہیں،آپ کے جنگ بدر کی شرکت میں اختلاف ہے،باقی سارے غزووں میں حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے،آپ کی کنیت ابوعبداﷲ ہے،عمر شریف ۹۱ سال ہوئی،    ۶۱ ھ؁  میں وفات پائی۔

۲؎ یعنی آئندہ زمانہ میں کچھ سخت دل اور بداخلاق حکام بھی ہوں گے تم ان کی بد اخلاقی کی بنا پر زکوۃ کے انکاری نہ ہوجانا کہ تمہاری زکوۃ اﷲ کے لیے ہے نہ کہ ان کے لیے بلکہ  انہیں دیکھ کر خوش ہونا کہ ان کے ذریعہ تمہارا فریضہ ادا ہوگا،بعض دیندار غنی زکوۃ دیتے وقت فقیر کا احسان مانتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ہمارا فرض ادا ہوا۔

۳؎ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر ظہور ظلم کریں کہ زکوۃ سے زیادہ لیں یا زکوۃ کے ساتھ رشوت مانگیں اور تم دے دو کیونکہ ظلم پر امدادبھی ظلم ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی فعل تمہیں ظلم معلوم ہو مگر واقع میں ظلم نہ ہو تو تم اپنی رائے پر عمل نہ کرو ان کے حکم پرعمل کرو مثلًا زکوۃ میں درمیانہ جانور لینا چاہیئے  ایک جانور کو تم اعلیٰ سمجھتے ہو وہ درمیانہ یا پیداوار کا دسواں حصہ دیناچاہیئے،تم ایک ڈھیڑ کو سو۱۰۰ من سمجھتے ہو تو وہ سوا سو من ہے تو تم ان کی بات مان لو،اب اگر واقعی وہ زیادہ لے گئے ہیں تو اس کے جواب دہ وہ ہوں گے نہ کہ تم یا یہ کلام بطریق مبالغہ ہے کہ فرض کرو کہ واقع میں وہ ظالم بھی ہوں تو بھی تم ان کا مقابلہ نہ کرو گے اس میں سلطان اسلام کی بغاوت ہوگی جس کے دبانے کے لیے وہ قوت خرچ کریں گے جس سے کشت و خون و فساد ہوگا بلکہ ان کے ظلم کی شکایت بادشاہ سے کرو اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرو لہذا حدیث بالکل ظاہر ہے اس میں ظلم کی اجازت نہیں دی گئی مگر پہلے معنے راحج ہیں کیونکہ ان سے دعا لینے کا حکم دیا گیا ظلم سے دعا کب لی جاتی ہے۔
Flag Counter