مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم |
روایت ہے حضرت جریر ابن عبداﷲ سے فرماتے ہیں کہ کچھ دیہاتی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے بولے کہ زکوۃ وصول کرنے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم پرظلم کرتے ہیں حضور نے فرمایا کہ اپنے زکوۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو وہ بولے یارسول اللہ اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں فرمایا انہیں راضی کرو اگرچہ تم ظلم کئے جاؤ ۱؎ (ابوداؤد)
شرح
۱؎ اس کی شرح پہلے گزر چکی۔یہ بدوی حضرات شرعی مسائل سے پورے واقف نہ تھے اور زکوۃ وصول کرنے والے عامل جو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر ہوتے تھے وہ قریبًا تمام مسائل سے خصوصًا زکوۃ کے مسائل سے پورے خبردار ہوتے تھے،یہ دیہاتی حضرات اپنی کم علمی کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ عاملین ہم پر زیادتی کررہے ہیں ا س لیےحضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ تم ان کے جائز عمل کو ظلم ہی سمجھتے رہو مگر انکی بات مانو اور ان کے کہے پر عمل کرو،انہیں راضی کر کے واپس کرو کیونکہ میرے صحابہ ظالم نہیں ہوسکتے،وہ میرے صحبت یافتہ و تعلیم یافتہ ہیں اور بشہادت قرآن کریم وہ سب عادل ہیں،لہذا اس حدیث میں نہ تو حکام کو ظلم کی اجازت ہے اور نہ اس سے صحابہ کا ظالم و فاسق ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔خیال رہے کہ جو کسی صحابی کو ظالم مانے وہ چیونٹی سے بھی زیادہ بے وقوف ہے،قرآن کریم فرماتاہے کہ چیونٹی نے اپنی سہیلیوں کو لشکر سلیمانی سے خبردارکرتے ہوئے یہ کہا"لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَجُنُوۡدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ"یعنی ایسا نہ ہو کہ تم لشکر سلیمانی یعنی حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے صحابہ کے پاؤں تلے روندی جاؤ اور انہیں خبر نہ ہو۔مطلب یہ ہے کہ وہ حضرات جان بوجھ کر چیونٹی کو بھی نہیں کچلتے،صحابہ کرام کی آپس کی جنگیں"وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ"کے ماتحت ہوئیں،دیکھو یہاں حضور علیہ ا لسلام نے ان لوگوں سے ظلم کی تفصیل نہ پوچھی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ وہ ظلم کرتے ہی نہیں۔