Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول
-2 - 728
بسم اللہ  الرحمن الرحيم
حدیث
روایت ہے عمر ابن خطاب سے  ۱؎  فرماتے ہیں(راضی ہو اللہ ان پر)فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اعمال نیّتوں سے ہیں ۲؎ ہرشخص کے لئے وُہ ہی ہے جو نیّت
شرح
۱؎  آپ کا نام شریف عمر ابن خطاب ابن نفیل ہے،کنیت ابو حفص،لقب فاروق اعظم،خطا ب امیر المؤمن ین۔آپ قرشی عدوی ہیں،کعب ابن لوی میں حضور سے مل جاتے ہیں،آپ کے فضائل بے حد و بشما ر ہیں۔جلیل القدر صحابی،قدیم الاسلام مؤمن ہیں،آپ کے ایمان سے مسلمانوں کا چالیس کا عدد پورا ہوا، آپ کے ایمان لانے پر فرشتوں میں مبارکباد کی دھوم مچی اور یہ آیت اُتری:
'' یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ ''
ابوبکر صدیق کے بعد    ۱۳؁ھ میں آپ کی بیعت کی گئی،آپ کے زمانہ میں اسلام بہت پھیلا،بہت ممالک فتح ہوئے،قرآن کریم کی بہت سی آیتیں آپ کی رائے کے مطابق اتریں،دس سال چھ مہینے خلافت کی تریسٹھ سال عمر شریف ہوئی،۲۶ذوالحجہ    ۲۳؁ھ بدھ کے دن مسجد نبوی محراب النبی میں مصلاءمصطفی پر نماز فجر پڑھاتے ہوئے شہید کیئے گئے،مغیرہ ابن شعبہ کے یہودی غلام ابو لؤلؤ نے خنجر کا وار کیا،آپ کی شہادت پر درو دیوار سے اسلام کے رونے کی آواز آتی تھی کہ آج اسلام و مسلمین یتیم ہوگئے،حضرت صہیب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی،گنبد خضری میں پہلوئے مصطفےٰ میں دفن ہوئے،آپ کی روایتیں پانچ سوسینتسئ ۵۳۷ ہیں۔رضی اﷲ تعالٰی عنہ

۲؎  نیت ارادۂ عمل کو بھی کہتے ہیں اور اخلاص کو بھی،یعنی اﷲ رسول کو راضی کرنے کا ارادہ،یہاں دوسرے معنی میں ہے یعنی اعمال کا ثواب اخلاص سے ہے،جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے،اس صورت میں یہ حدیث اپنے عموم پر ہے،کوئی عمل اخلاص کے بغیر ثواب کا باعث نہیں،خواہ عبادات محضہ ہوں جیسے نماز،روزہ وغیرہ یا عبادات غیر مقصودہ جیسے وضو،غسل،کپڑا،جگہ،بدن کا پاک کرنا وغیرہ کہ ان پر ثواب اخلاص سے ہی ملے گا۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اخلاص اور نیتِ خیر ایسی نعمتیں ہیں کہ ان کے بغیر عبادات محض عادتیں بن جاتی ہیں،اور اس کی بر کت سے کفر شکر بن جاتا ہے،اور گناہ و معصیت اطاعت۔حضرت ابوامیہ ضمیری نے ایک موقعہ پر کفریہ الفاظ بول لیئے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی رات غار ثور میں ایک قسم کی خودکشی کرلی،سیدنا علی المرتضی نے خندق میں عمدًا نماز عصر چھوڑ دی،مگر چونکہ نیتیں خیرتھیں،اس لیئے ان حضرات کے یہ کام ثواب کا باعث بنے۔مولانا فرماتے ہیں۔شعر    ؎
			ہرچہ گیرد عِلَّتی عِلّت شود	کفر گیر د مِلَّتی مِلّت  شود
شوافع کہتے ہیں کہ یہاں نیت پہلے معنی میں ہے،یعنی ارادۂ فعل ان کے نزدیک جو بغیر ارادہ وضو اعضاء دھولے تو اس سے وضو نہ ہوگا جیسے بلا ارادہ نماز نہیں ہوتی مگر یہ تفسیر مقصد حدیث کے خلاف ہے اور پھر حدیث کا عموم باقی نہیں رہتاکیونکہ آگے ہجرت کا ذکر ہے۔جو دنیوی غرض سے ہجرت کرے شرعًا مہاجر ہوگا اگرچہ ثواب نہ ہوگا۔نیز جو بغیر ارادہ جو از نماز،گندا کپڑا،گندا جسم،گندی زمین دھو ڈالے تو ان کے ہاں بھی یہ چیزیں  پاک ہوجاتی ہیں،اور نماز اس سے جائز ہوتی  ہے یہ معنی ان کے بھی خلاف ہیں۔خیال رہے کہ ارکان اسلام یعنی کلمہ،نماز،روزہ،حج،زکوۃ  میں نیت یعنی ارادہ فعل فرض ہے،باقی جہاد، ہجرت وضوء وغیرہ میں یہ نیت فرض نہیں۔ہاں اخلاص کے بغیر ان میں ثواب نہ ملے گا۔لہذا احناف کے معنی نہایت صحیح ہیں اور حدیث نہایت جامع۔نماز میں زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت حسنہ ہے کیونکہ حضور نے کل ۳۰ ہزار نمازیں پڑھیں ہیں مگر کبھی زبان سے نیت نہ کی،بعض  علماء نے نماز کو حج پر قیاس کیا اور فرمایا کہ جیسے احرام کے وقت زبان سے حج کی نیت کی جاتی ہے ایسے ہی نماز میں کرنی چاہیئے مگر یہ صحیح نہیں۔دیکھو مرقات۔
Flag Counter