Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول
-1 - 728
کرے۱؎  بس جس کی ہجرت اللہ و رسول کی طرف ہو تو اُس کی ہجرت اللہ ورسول ہی کی طرف ہوگی۲؎  اور جس کی ہجرت دنیاحاصل کرنے یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو۳؎  اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس کے لئے کی  ۴؎
۱؎ ہجرت کے لغوی معنی ہیں چھوڑنا۔شریعت میں رب کو راضی کرنے کے لیئے وطن چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ہجرت بوقت ضرورت اعلٰی درجہ کی عبادت ہے،اسلامی سنہ حضور کی ہجرت کی یادگار ہے۔

۲؎  یعنی جو ہجرت میں اﷲ اور رسول کی خوشنودی کی نیت کرے،اس کی ہجرت واقعی اﷲ اور رسول کی طرف ہی ہوگی لہذا حدیث میں دور نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں رضاءِ رب کے ساتھ حضور کی رضا کی نیت شرک نہیں بلکہ عبادت کو کامل کرتی ہے۔دیکھو ہجرت عبادت ہے،مگر فرمایا گیا:"اِلیَ اﷲِ ورسولہ"۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کے پاس جانا اﷲ کے دربار میں حاضری ہے کہ مہاجرین مدینہ جاتے تھے،جہاں حضور تشریف فرما تھے،وہاں جانے کو اﷲ کے پاس جانا قرار دیا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر جگہ حضور ہی کے دم کی بہار ہے،ان کے بغیر اجڑا دیا رہے۔دیکھو  مکہ معظمہ میں رہنا عبادت ہے،مگر جب حضور  وہاں سے مدینہ منورہ چلے گئے تو اگرچہ وہاں کعبہ وغیرہ سب کچھ رہا مگر وہاں رہنا گناہ قرار پایا،وہاں سے ہجرت ضروری ہوگئی،پھر جب وہاں حضور کی تجلی ہوگئی،پھر وہاں رہنا عبادت قرار پایا۔

 

۳؎   انصارِ مدینہ نے مہاجرین کی ایسی دائمی شاندار مہمانی  کی کہ سبحان اللہ!انہیں اپنے گھروں،باغوں،زمینوں میں برابر کا حصہ دار بنالیا،حتی کہ اگر کسی انصار ی کی دو بیویاں تھیں تو ایک کو طلاق دے کر مہاجر بھائی کے نکاح میں دے دی،اندیشہ تھا کہ کوئی زمین،مکان یا عورت کی لالچ میں ہجر ت کرے اسی لیئے حضورنے یہ ارشاد فرمایا۔اس مضمون سے معلوم ہوا کہ یہاں اَلنِّیَّا ت میں نیت بمعنی ارادہ فعل نہیں ہے بلکہ بمعنی اخلاص ہے۔ریا کار مہاجر بھی مہاجر کہلائے گا مگر ثواب نہ پائے گا جیسا کہ ھِجرَتُہٗ سے معلوم ہورہا ہے۔

۴؎  صاحب ِ مشکوٰۃ ولی الدین محمد علیہ الرحمۃ نے شروع کتاب میں یہ حدیث ہم کو سمجھانے کے لیئے لکھی کہ میری کتاب اخلاص سے پڑھنا،محض دنیا کمانے کے لیے نہ پڑھنا،اپنی دلی کیفیت پر ہم کو مطلع فرمایا کہ میں نے یہ کتاب اخلاص سے لکھی ہے،شہرت یامال مقصود نہ تھا،یہ حدیث میرے پیش نظرتھی۔
Flag Counter