مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی ضَرورتاً الفاظ کی کمی اور زیادَتی کی صورت بنتی ہے ۔ جو کہ فُضُول نہیں تَفْہِیم (تَفْ۔ہِیم) یعنی سمجھانے کے اعتِبار سے لوگوں کی تین قِسمیں کی جا سکتی ہیں(1) انتہائی ذِہین(2) مُتَوَسِّط یعنی درمیانے دَرَجے کا ذِہین (3) غَبی یعنی کُند ذِہن۔ جو'' اِنتہائی ذِہین'' ہو تا ہے وہ بعض اوقات صِرف ایک لفظ میں بات کی تہ تک جا پہنچتا ہے جبکہ درمیانے دَرَجے کی سمجھ رکھنے والے کو بِغیر خُلاصے کے سمجھنا دُشوار ہوتا ہے ، رہا کُندذِہن تو اس کو بَسا اوقات دس بار سمجھایا جائے تب بھی کچھ پلّے نہیں پڑتا ۔ مُخاطَبِین کی اِس تقسیم کے مطابِق یہ بات ذِہن نشین فرما لیجئے کہ جو ایک لَفظ میں بات سمجھ گیا اُس کو اگر اُسی بات کیلئے دوسرا لفظ بھی کہا تو یہ دوسرا لفظ فُضُول قرار پائے گا، اِسی طرح درمِیانی عَقل والا اگر 12الفاظ میں سمجھ پاتا ہے تو اُس کے سمجھ جانے کے باوُجُوداُسی بات کا 13واں یا اِس سے زائد جو لفظ بِلامَصلحت بولا گیا وہ فُضُول ٹھہرے گا اور رہا کُند ذِہن کہ اگر 100الفاظ کے بِغیر بات اِس کے ذِہن میں نہیں بیٹھتی تو یہ 100 الفاظ بھی چُونکہ ضَرورت کی وجہ سے بولے گئے لہٰذا فُضُول گوئی نہیں کہلائیں گے۔