علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے چچا جان حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبرِ اَنور پر حاضری دیں ، جتنا ممکن ہوسکے قرآن پڑھیں اور پھر اوّل سے آخر تک انہیں اپنا حال سنائیں ۔میں نے تعمیلِ ارشاد میں چاشت کے وقت ہی حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مَزار شریف پر حاضری دی اور شیخ گرامی کے حکم کے مطابق قرآنِ حکیم پڑھ کر اپنا حال سنا ڈالا۔ ظہر سے پہلے واپس ہوااور بابِ رحمت میں طہارت خانہ سے وضو کرکے مسجد شریف میں داخل ہوا تو وہاں والدہ محترمہ کو موجود پایا، فرمانے لگیں : ابھی تمہیں ایک آدمی پوچھ رہا تھا۔ میں نے عرض کی: اب وہ کہاں ہے؟ کہنے لگیں :حرمِ نبوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے جاؤ۔میں اس طرف گیا تو ایک پُر ہیبت شخصیت کے مالک سفید داڑھی والے بُزرگ سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے:’’ شیخ احمد مرحبا! ‘‘ میں نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لئے۔فرمایا: مصر چلے جاؤ۔ میں نے عرض کی: آقا ! کس کے ساتھ؟ فرمانے لگے: چلومیں کسی آدمی سے تمہارے کرائے کی بات کرادیتا ہوں ۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے مدینہ طیبہ میں مصری حاجیوں کے کیمپ میں لے گئے۔ وہ ایک خیمے میں داخل ہوئے تو پیچھے پیچھے میں بھی داخل ہوگیا، انہوں نے خیمے کے مالک کو سلام کیا ،وہ انہیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوااور آپ کے ہاتھ چوم کر بڑے ادب واِحترام کے ساتھ بٹھایا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سے فرمایا: شیخ احمد اور ان کی والدہ کومصر پہنچانا ہے۔وہ مصری تیار ہوگیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے فرمایا: کتنے پیسے لو گے؟ اس نے عرض کی: جتنے آپ کی مرضی